• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 6763

    عنوان:

    میرے والد صاحب نے اپنی وفات سے پہلے 2004 میں اپنے دو لڑکوں اور چار لڑکیوں کو بہت زیادہ پیسہ نقد اور ادھار کیشکل میں حالات کے مطابق دیا۔ انھوں نے نقد اور ادھار کے تمام ریکارڈ کو تحریری شکل میں رکھا ہے۔ انھوں نے اپنے لڑکوں کو اس بات کی ہدایت دی ہے کہ نقد اور ادھار کو ان کی وفات کے بعد ان کی جائیداد سے ترتیب دے لیا جائے گا۔ 2001 میں اس طرح کے ایک موقع پر انھوں نے اپنا ایک مکان جو کہ بنگلور میں واقع ہے اپنی دوسرے نمبر کی لڑکی کو دیا جس کی قیمت تقریباً چار لاکھ روپیہ ہے جو کہ والد صاحب کے اکاؤنٹ میں ادھار کے طور پر درج ہے۔۔۔۔۔؟؟؟

    سوال:

    میرے والد صاحب نے اپنی وفات سے پہلے 2004 میں اپنے دو لڑکوں اور چار لڑکیوں کو بہت زیادہ پیسہ نقد اور ادھار کیشکل میں حالات کے مطابق دیا۔ انھوں نے نقد اور ادھار کے تمام ریکارڈ کو تحریری شکل میں رکھا ہے۔ انھوں نے اپنے لڑکوں کو اس بات کی ہدایت دی ہے کہ نقد اور ادھار کو ان کی وفات کے بعد ان کی جائیداد سے ترتیب دے لیا جائے گا۔ 2001 میں اس طرح کے ایک موقع پر انھوں نے اپنا ایک مکان جو کہ بنگلور میں واقع ہے اپنی دوسرے نمبر کی لڑکی کو دیا جس کی قیمت تقریباً چار لاکھ روپیہ ہے جو کہ والد صاحب کے اکاؤنٹ میں ادھار کے طور پر درج ہے۔ لیکن قانونی اعتبار سے یہ مکان دوسرے نمبر کی لڑکی کے نام سے رجسٹرڈ نہیں ہے۔ (دوسرے نمبر کی لڑکی کو مکان دینے سے پہلے میرے والد صاحب نے دوسرے لڑکے اور لڑکیوں سے رائے اور مشورہ لیاکہ آیا ہم میں سے کسی کو بنگلور والے مکان کی ضرورت ہے جس کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا)۔ حال ہی میں جب والدمرحوم کی جائیداد تمام ورثا کے درمیان تقسیم ہورہی تھی تو اس میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں اوردوسوال زیر بحث آئے۔ (۱) اس تاریخ تک بنگلور والا مکان دوسرے نمبر کی لڑکی کے نام سے رجسٹر نہیں ہوا تھا اس لیے یہ جائیداد متوفی کی ملکیت ہے او رشریعت کے اعتبار سے اس کی تقسیم ہوگی۔ (۲) جب دوسرے تمام لڑکے اور لڑکیوں کی نقد اور ادھار کی شکل میں والد مرحوم کے ذریعہ سے مدد کی گئی تھی تو دوسرے نمبر کی لڑکی کو ایک مکان کی جائیداد دی گئی تھی جس کی قیمت اب بیس لاکھ ہے (دوسرے تمام ورثاء سے سولہ لاکھ زیادہ)جب کہ دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کے نقد اور ادھارکی مالیت ایک جیسی ہی ہے۔ اب قرآن اور حدیث کی روشنی میں ورثاء کے درمیان کیسے انصاف کیا جائے گا؟ میں علمائے کرام اور مفتیان کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ اوپر مذکورکیس کی حقیقت کو دیکھیں اور اپنا فتوی عنایت فرماویں۔

    جواب نمبر: 6763

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1385=1300/ د

     

    (۱) مکان والد کے اکاوٴنٹ میں ادھار کے طور پر لکھا ہے، لڑکی کو مکان کس طور پر دیا تھا؟ ہبہ کیا تھا یا ادھار دیا تھا؟ قبضہ ودخل دیدیا تھا یا نہیں؟ لڑکی کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ لڑکی خود اس سلسلہ میں کیا کہتی ہے؟ اگر ادھار کے طور پر دیا ہے تو وہ والد کا ترکہ بنے گا۔

    (۲) لڑکے لڑکیوں کی والد نے جس وقت ادھار اور نقد کے طور پر مدد کی تھی، اس وقت مکان کی قیمت چار لاکھ تھی، اور والد نے چار لاکھ قیمت متعین کرکے ادھار دیا تھا تو اسی وقت کی قیمت یعنی چار لاکھ روپئے ادھار مانے جائیں گے۔ موجودہ قیمت نہیں مانی جائے گی۔ اگر اس کے علاوہ اور کوئی صورت ہو تو اس کو وضاحت سے لکھ کر دوبارہ دریافت کریں اور اس فتوے کو منسلک کردیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند