• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 67046

    عنوان: بیوی کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ کس شکل سے تقسیم کیا جائے گا؟

    سوال: میری شادی پچھلے سال ۲ اگست ۲۰۱۵ کو ہوئی تھی۔ میری اہلیہ اتر پردیش سرکار میں بحثیت سرکاری اسکول ٹیچر کے کام کر رہی تھی۔ 2016مارچ میں پیلیا کی بیماری ہو جانے کی وجہ سے ان کی شدید طبیعت خراب ہو گئی، اس وقت انھیں پانچ ماہ کا حمل بھی تھا۔ پانچ اپریل کو ان کا اور بچے کا انتقال ہو گیا۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ چونکہ وہ ایک سرکاری ملازم تھی جس کی وجہ سے ان کا کچھ بینک بیلنس اور ایک ایل آئی سی تھی جس کی رقم مکمل طور پر معلوم نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اپنے اور سسرال سے دیے گئے کچھ چاندی اور سونے کے زیورات بھی تھے ۔ چونکہ یہ پہلا حمل تھا اور ان کے پیچھے ان کی کوئی اولاد نہیں ہے لیکن ان کے ماں باپ حیات ہیں اس کے علاوہ ان کے دو بالغ بھائی اور ایک بالغ بہن ہے ۔ سسرال میں شوہر کے علاوہ ساس سسرحیات ہیں۔ ایک جیٹھ اور ایک نند جو شادی شدہ ہیں اور ایک بالغ دیور اور دو بالغ نند ہیں ۔ اس صورت میں مرحومہ کے ترکہ میں کون کون حقدار ہیں اور تقسیم کی شکل کیا ہوگی۔ان کے ترکہ میں سے مال کا کتنا حصہ صدقہ کیا جا سکتا ہے ۔ شوہر ہونے کی حیثیت سے میرے کیا اختیارات ہیں۔ اور میں ترکہ کی تقسیم میں کہاں تک دخل اندازی کر سکتا ہوں۔ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں میری جلد سے جلد رہنمائی فرمائیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ والسلام اظہر علی

    جواب نمبر: 67046

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1013-1013/M=10/1437

    صورت مسئولہ میں آپ کی مرحومہ بیوی کے متروکہ مال کے حقدار مرحومہ کے والدین اور آپ ہیں، آپ (شوہر) کو ترکہ کا نصف حصہ ملے گا اور مرحومہ کی والدہ کو چھٹا حصہ (سُدس) ملے گا اور مابقیہ مرحومہ کے والد کو ملے گا، مرحومہ کے بھائی بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔ اور تقسیم ترکہ سے پہلے مشترکہ میراث سے صدقہ وغیرہ کرنا درست نہیں، پہلے ترکہ شرعی طور پر تقسیم ہوجائے پھر ہر وارث اپنے حصے میں ہر تصرف کا مجاز ہوگا اگر کوئی وارث مرحومہ کے ایصال ثواب کے لیے اپنا حصہ لینے کے بعد صدقہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

    زوج    :     ۳
     اب    :    ۲
     ام    :     ۱
     اخ، اخ    :     م
    اخت    :     م


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند