• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 64183

    عنوان: وصیت زبانی کافی ہے یا لکھنا بہترہے؟

    سوال: وصیت اپنے لیے کرنا ہے تاکہ بعد وفات صدقہ جاریہ بنے۔ (۲) وصیت زبانی کافی ہے یا لکھنا بہترہے؟ (۳) ایک تہائی وصیت میں زکاة ، فدیہ ، صدقات ، تحصیل تعلیمی دین کرنے والوں کے لیے اور صدقہ جاریہ کے لیے، اس کو کس طرح لکھا جائے ؟ (۴) دو بیٹیوں ، خاوند اور چند (ایک سے زیادہ ) بہن اور بھائی ہوں(والدین نہیں ہیں) تو وصیت کے لیے کس طرح میراث تقسیم ہوگی؟ (۵) کس طرح لکھیں، بتائیں۔ (۶) وقت وفات کون رہے گا یہ تو اللہ ہی جانتاہے۔ براہ کرم، تشفی بخش جواب دیں۔ جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 64183

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 436-87/D=6/1437 آپ اپنی مملوکہ چیزوں کی وصیت کسی عزیز رشتہ دار، اہل تعلق یا کار خیر (مسجد مدرسہ) کے لیے کرسکتی ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ رشتہ دار آپ کا ہونے والا وارث نہ ہو کیونکہ وارث کے لیے وصیت اسی وقت معتبر ہوگی جب دوسرے ورثاء اسے تسلیم کریں دوسری شرط یہ کہ وصیت اپنی کل مملوکہ (منقولہ غیر منقولہ چیزوں نقد، زیور، گرہستی کے سامان زمین، مکان) کے مجموعہ کے 1/3(تہائی) کے اندر اندر ہو۔ (۲) وصیت زبانی بھی ہوجاتی ہے بہتر ہے کہ زبانی وصیت بھی دو گواہوں کے سامنے کریں تاکہ بعد میں وہ لوگوں کے سامنے بیان دے سکے، اور زیادہ اچھا یہ ہے کہ وصیت کی تحریر لکھ دی جائے اور اس پر وصیت کرنے والا خود اپنا دستخط کردے اور دو گواہوں کا دستخط بھی کرادے اور اگر کوئی مضائقہ نہ ہو تو اہل خانہ کو سنا بھی دے تاکہ بعد میں عمل درآمد میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ (۳) تحصیل علم دین کرنے والوں اور صدقہ جاریہ کے لیے وصیت کرنے کے الفاظ کچھ اس طرح ہوں گے (الف) میں اپنی فلاں جائیداد کو فلاں مدرسہ پر جہاں قرآن وحدیث کی تعلیم ہوتی ہے وقف کرتی ہوں (وصیت کرتی ہوں) یا غرباء ومساکین کے فائدہ کے لیے وقف / وصیت کرتی ہوں۔ (ب) میں اپنی فلاں جائیداد کی آمدنی یا نقد روپے کے لیے وصیت کرتی ہوں کہ وہ مدارس دینیہ کے طلبہ جو علم دین حاصل کرتے ہیں یا علم دین پڑھاتے ہیں پر بطور وظیفہ خرچ کردی جائے یا فروختگی کے بعد جائیداد کی قیمت مسجد / مدرسہ میں لگادی جائے ۔ نمبر (۳) میں زکاة فدیہ صدقات آپ نے لکھے ہیں ان سے کیا مراد ہے؟ اگر نماز روزے کا فدیہ اور گذشتہ سالوں کی زکاة مراد ہے تو پچھلی نماز میں آہستہ آہستہ آپ ادا کرنے کی کوشش کریں (زندگی میں اس کا فدیہ نہیں ہوتا) اور یہ وصیت لکھ دیں میرے ذمے جو نمازیں باقی رہ جائیں میرے ترکہ میں سے ان کا فدیہ ادا کردیا جائے، یہی حکم روزے کا بھی ہے۔ البتہ زکاة میں کوشش کریں پچھلے سالوں کی زکاة کا حساب لگاکر اسے خود ادا کردیں جو باقی رہ جائے اس کے لیے وصیت کردیں مثلاً یہ لکھ دیں کہ میری زکاة کا حساب فلاں ڈائری میں لکھا ہے جس قدر ادا کردوں گی اسے لکھ دوں گی جو باقی رہ جائے اسے میرے ترکہ میں سے ادا کردیا جائے میں اس کی وصیت کرتی ہوں۔ جو کچھ آپ بطور وصیت لکھنا چاہتی ہیں مذکورہ بالا ہدایات کی روشنی میں اسے لکھوالیں پھر یہاں بھیج کر مشورہ حاصل کرلیں۔ (۴) جب کل ترکہ کا 1/3(تہائی) یا اس سے کم وصیت میں چلا جائے گا پھر 2/3 (دوتہائی) یا اس سے زائد جو بچے گا وہ ان ورثا کے درمیان تقسیم ہوگا جو آپ کے انتقال کے وقت باحیات رہیں گے اس کے لیے آپ یہ وصیت کردیں گے کہ میری مالی وصیت کی تنفیذ اور قرض کی ادائیگی کے بعد جو کچھ بچے وہ میرے ورثائے شرعی کے درمیان شرعی حساب سے تقسیم کردیا جائے اور شرعی تقسیم کا حساب کسی معتبر دارالافتاء سے فتوی لے کر معلوم کرلیا جائے، معتبر دارالافتاء کا نام بھی لکھ سکتی ہیں۔ (۵) اس کا جواب نمبر (۲) میں آگیا۔ (۶) بیشک ۔ طریقہ وصیت کا اوپر لکھ دیا گیا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند