معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 63906
جواب نمبر: 63906
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 408-86/D=6/1437 زید کا کل ترکہ حقوق مقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد چار حصوں میں ہوکر ایک حصہ بیوی جمیلہ کو اور دو حصے باحیات بھائی بکر کو ایک حصہ باحیات بہن سلیمہ کو مل جائے گا، مرحوم بھائی بہنوں کی اولاد محروم رہیں گی۔ اہلیہ جمیلہ = ۱ بھائی بکر = ۲ بہن سلیمہ = ۱ بھتیجے = محروم بھتیجیاں = محروم (۲) ہبہ تام ہونے کے لیے زبان سے کہنے کے ساتھ موہوب لہ کو قبضہ دخل دینا بھی ضروری ہے، پس صورت مسئولہ میں متبنی کریمہ کو صرف زبانی ہبہ کرنے سے جب کہ قبضہ دخل نہیں دیا ہبہ تام نہیں ہوا اور مکان مذکور کریمہ کی ملکیت نہیں ہوا بلکہ زید مرحوم کا ترکہ ہوکر اس کے ورثاء شرعی میں تقسیم ہوگا۔ (۳) زید نے اپنے اکاوٴنٹ میں جمع رقم جو اہلیہ جمیلہ کو دینے کی بات کہی اور جمیلہ کو قبضہ حاصل کرنے (یعنی رقم نکالنے) کا حق وموقعہ بھی فراہم کردیا مگر جمیلہ نے رقم نکال کر اپنے قبضہ میں نہیں کیا نہ ہی اپنے ذاتی مخصوص اکاوٴنٹ میں منتقل کیا۔ پس یہ ہبہ تام نہیں ہوا اور پوری رقم زید مرحوم کی ملکیت میں باقی ہے زید کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ بن گیا اور ورثاء شرعی کے درمیان حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔ (۴) زید کے متروکہ مکان میں 1/4 (چوتھائی) زوجہ جمیلہ کا ہے جسے لینے اور استعمال کرنے کا انھیں پورا حق اور اختیار ہے رہائش اور استعمال کرنے میں ایثار ہمدردی صلہ رحمی مدنظر رکھی جائے اور جمیلہ کی بات سب ورثا مان لیں تو بہت اچھی بات ہے۔ باقی تقسیم کرنے میں اگر سب کا ضرر ہو یا حصہ رسدی ناقابل استعمال ہوجائے تو پھر باہمی مصالحت ومفاہمت سے معاملہ طے کرلیا جائے کوئی حصہ دار اپنا حصہ دوسرے حصہ دار کے بدست فروخت کردے جس سے معاملہ حل ہوجائے ، اگر یہ نہ ہوسکے تو پھر باتفاق رائے پورا مکان فرخت کرکے قیمت حسب حصص شرعی آپس میں تقسیم کرلی جائے اور ہرشخص رہائش کا بند وبست اپنے طور پر کرلے خواہ کرایہ کے مکان کے ذریعہ ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند