• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 63906

    عنوان: شرعاً اس لفظی ہبہ کا کیا حکم ہو گا؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائدین ومفتیان شرع اس مسئلہ میں کہ زید کا دسمبر 2015 میں لا ولد انتقال ہوا۔ با حیات ورثا میں اہلیہ جمیلہ کے علاوہ ایک برادر بکر اور ایک ہمشیرہ سلیمہ موجود ہیں۔ انکے علاوہ زید کی زندگی میں ہی فوت شدہ تین بھائیوں کے لڑکے لڑکیاں یعنی زید کے بھتیجے بھتیجیاں بہی موجود ہیں۔ شرعاً متروکہ کی تقسیم کسطرح ہوگی؟ سوال: دوسرا سوال یہ ہے کہ زید نے 1986 میں ایک نو مولودہ لڑکی کریمہ کو گود لیا تھا اور بحسن وخوبی زید نے اسکی پرورش اورتعلیم وتربیت کی۔ اور 2008 میں زید نے کریمہ کی شادی بھی کردی.زید کی ملکیت میں ایک گھر بھی ہے اور اسی گھر میں زید تا دم زیست قیام پذیر تھے اور اپنی متبنی کریمہ کی شادی ہوجانے کے بعد زید نے کہا تھا کہ یہ گھر کریمہ کا ہے ۔ اور اس جملے کو زید نے کئی بار اور مختلف اصحاب کے سامنے ادا کیا۔تاہم زید اسی گھر میں مقیم رہے کریمہ کے قبضہ تصرف میں گہر نہیں دیا۔تو اس صورت میں کیا وہ گھر کریمہ کے لیے ہبہ ہو جائے گا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ زید نے اپنی حین حیات میں اہلیہ جمیلہ کو اپنے فکس کردہ پوسٹ آفس کے اکاؤنٹ میں موجود چہے لاکھ روپے نقد رقم سے متعلق کہا تھا کہ یہ رقم آپکی ہے آپ لے لینا تاہم مذکورہ اکاؤنٹ کو زید نے اپنے سے مشترکہ بھی کردیا تھا یعنی جمیلہ اس اکاؤنٹ سے تنہا رقم نکالنے کی بہی مجاز ہیں۔ تو شرعاً اس لفظی ہبہ کا کیا حکم ہو گا؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ زید کی بیوہ جمیلہ کا یہ کہنا ہے کہ بعد مرور ایام عدت وہ اسی گہر میں قیام پذیر رہیں گی یا جو حصہ انکو شرعاً ملتا ہے وہ اسی میں رہیں گی جبکہ گہر کا رخ اتنا چھوٹا ہے کہ الگ راستے کے ذریعے انکے حصوں کوگہر سے جدا نہیں کیا جا سکتاہے تو شرعاً ایسی صورت میں کیا حکم ہے ؟

    جواب نمبر: 63906

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 408-86/D=6/1437 زید کا کل ترکہ حقوق مقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد چار حصوں میں ہوکر ایک حصہ بیوی جمیلہ کو اور دو حصے باحیات بھائی بکر کو ایک حصہ باحیات بہن سلیمہ کو مل جائے گا، مرحوم بھائی بہنوں کی اولاد محروم رہیں گی۔ اہلیہ جمیلہ = ۱ بھائی بکر = ۲ بہن سلیمہ = ۱ بھتیجے = محروم بھتیجیاں = محروم (۲) ہبہ تام ہونے کے لیے زبان سے کہنے کے ساتھ موہوب لہ کو قبضہ دخل دینا بھی ضروری ہے، پس صورت مسئولہ میں متبنی کریمہ کو صرف زبانی ہبہ کرنے سے جب کہ قبضہ دخل نہیں دیا ہبہ تام نہیں ہوا اور مکان مذکور کریمہ کی ملکیت نہیں ہوا بلکہ زید مرحوم کا ترکہ ہوکر اس کے ورثاء شرعی میں تقسیم ہوگا۔ (۳) زید نے اپنے اکاوٴنٹ میں جمع رقم جو اہلیہ جمیلہ کو دینے کی بات کہی اور جمیلہ کو قبضہ حاصل کرنے (یعنی رقم نکالنے) کا حق وموقعہ بھی فراہم کردیا مگر جمیلہ نے رقم نکال کر اپنے قبضہ میں نہیں کیا نہ ہی اپنے ذاتی مخصوص اکاوٴنٹ میں منتقل کیا۔ پس یہ ہبہ تام نہیں ہوا اور پوری رقم زید مرحوم کی ملکیت میں باقی ہے زید کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ بن گیا اور ورثاء شرعی کے درمیان حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔ (۴) زید کے متروکہ مکان میں 1/4 (چوتھائی) زوجہ جمیلہ کا ہے جسے لینے اور استعمال کرنے کا انھیں پورا حق اور اختیار ہے رہائش اور استعمال کرنے میں ایثار ہمدردی صلہ رحمی مدنظر رکھی جائے اور جمیلہ کی بات سب ورثا مان لیں تو بہت اچھی بات ہے۔ باقی تقسیم کرنے میں اگر سب کا ضرر ہو یا حصہ رسدی ناقابل استعمال ہوجائے تو پھر باہمی مصالحت ومفاہمت سے معاملہ طے کرلیا جائے کوئی حصہ دار اپنا حصہ دوسرے حصہ دار کے بدست فروخت کردے جس سے معاملہ حل ہوجائے ، اگر یہ نہ ہوسکے تو پھر باتفاق رائے پورا مکان فرخت کرکے قیمت حسب حصص شرعی آپس میں تقسیم کرلی جائے اور ہرشخص رہائش کا بند وبست اپنے طور پر کرلے خواہ کرایہ کے مکان کے ذریعہ ہو۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند