• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 62575

    عنوان: تقسیم ۘوراثت

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور شرع متین مسئلہ ذیل میں: زید کلالہ ہے ، نہ اولاد ، نہ ماں باپ،( بیوی اور دو بہنیں ہیں) زید سرکاری پرائمری اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے ۔ فالج کا اثر ہوا ایک ہاتھ اور ایک پیربیکار ہوگیا۔ اب رٹائرمنٹ لے لیا ہے ۔ زید کی بیوی ہی ان کی خدمت کرتی ہیں۔ زید جس مکان میں رہتے ہیں وہ ان کا آبائی مکان ہے ، جس میں زید اور ان کی بیوی ہی رہتے ہیں زید کی دو بہنیں ہیں والدین نے اپنے زمانہ حیات میں ہی آدھا مکان ان کے لئے کہہ دیا تھا اور آدھا دو بہنوں کو۔کیونکہ بہنیں شادی شدہ ہیں دوسرے شہروں میں رہتی ہیں ۔ سارا گھر(اپنے حصہ سمیت) انہی کے استعمال میں دے رکھا ہے ۔ زید کی بیوی چاہتی ہے کہ اپنے حصہ کا مکان اُسی کے نام کر دیا جائے ۔ جبکہ زید نے اپنا پیسہ جو مکان کی قیمت سے بھی زیادہ تھا اسے دے دیا ہے ۔ اور تنخواہ بھی ساری اُسی کے ہاتھ میں آتی ہے ۔ ان حالات میں وہ مکان بھی اپنے نام کرانا چاہتی ہیں جبکہ ایک بہن کے بچے بھی ضرورت مند ہیں۔ کیونکہ بہن کا انتقال ہو چکا ہے ۔ قرآن و سنت کا حکم بتا کر عنداللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 62575

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 137-117/D=3/1437-U والد کے ترکہ سے آدھا مکان اگر بطور وراثت آپ کو ملا ہے تو اس آدھے کے آپ تنہا مالک ہیں اپنی زندگی میں کسی کو ہبہ کرنے کا اختیار آپ کو ہے لیکن چونکہ آپ کے مرنے کے بعد بیوی کی طرح بہنیں بھی وارث ہوں گی (اگر زندہ رہیں) اس لیے کسی کو محروم کرکے وسرے کو ہبہ کرنا حق تلفی ہے جب آپ بیوی کو نقد کی شکل میں بہت کچھ دے چکے ہیں تو پھر مکان بیوی کو ہبہ کرنا مناسب نہیں، جس بہن کا انتقال ہوچکا اس کی اولاد ضرورت مند ہے تو آپ انھیں ہبہ کرکے آدھا مکان یا اس کا جز دیدیں یا وصیت کردیں مضائقہ نہیں کیوں کہ ان بچوں کو آپ کی وراثت سے حصہ نہیں ملے گا اور یہ ضرورت مند بھی ہیں پس صلہ رحمی کا تقاضا پورا کرنا بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند