• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 610737

    عنوان:

    آبا واجداد كی كتابوں كو كس طرح تقسیم كرنا چاہیے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علما کرام کہ ایک شخص جس نے اپنے پیچھے کتب کا ایک نادر و نایاب ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس ذخیرہ میں اس شخص کی اپنی کتب کے ساتھ ساتھ اس کے آباؤاجداد کی کتب بھی ہیں جو نادر و نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ قلمی بھی ہیں۔ آباؤاجداد کی کتب اس شخص کے ایک بیٹے نے سنبھال رکھی ہیں جس کا اس نے باقاعدہ خیال رکھا اور جو اس کے پاس نہیں تھیں وہ دیمک نے چاٹ لیں۔جب کہ اس شخص کی اپنی ذاتی کتب اس کے دوسرے بیٹے نے سنبھال رکھی ہیں ۔ کچھ اختلافات کی وجہ سے ایک بیٹا کہتا ہے کہ آباؤاجداد کی کتب تقسیم ہونی چاہیں۔ آباؤاجداد کے ورثاء سینکڑوں ہیں۔ آیا ان کتب کو تقسیم کرنا چاہیے یا نہیں اگر تقسیم کیا جائے تو کیسے؟

    جواب نمبر: 610737

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1124-217/TL-9-1443

     آباء و اجداد کی کتب ان کی میراث ہے،اگر ورثاء ان سے استفادہ کرنے کے اہل ہوں تو نمبر وار ان سے استفادہ کریں گے، اور اگر تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان کی تقسیم قیمت کے اعتبار سے ہوگی، اگر رقم تقسیم کرنا چاہیں تو مارکیٹ میں ان کی مالیت لگائی جائے اور اگر کتابوں کی صورت میں تقسیم کرنا چاہیں تو ہر ہر کتاب کی مالیت لگاکر پورے پورے سیٹ کے اعتبار سے تقسیم کی جائے، ایسی تقسیم نہ کی جائے کہ سیٹ خراب ہواگر ہر ایك كو مكمل سیٹ نہ مل سكے تو جومكمل سیٹ لےتو دوسرا اسی قیمت كی كوئی كتاب یا سیٹ لے لے یا وہ دوسروں كو زائد قیمت دیدے۔

    "لا تقسم الكتب بين الورثة ولكن ينتفع بها كل واحد بالمهايأة ولو أراد واحد من الورثة أن يقسم بالأوراق ليس له ذلك ولا يسمع هذا الكلام منه ولا تقسم بوجه من الوجوه، ولو كان صندوق قرآن ليس له ذلك أيضا وإن تراضوا جميعا فالقاضي لا يأمر بذلك ولو كان مصحف لواحد وسهم من ثلاثة وثلاثين سهما منه للآخر فإنه يعطى يوما من ثلاثة وثلاثين يوما حتى ينتفع ولو كان كتابا ذا مجلدات كثيرة كشرح المبسوط فإنه لا يقسم أيضا ولا سبيل إلى القسمة في ذلك، وكذا في كل جنس مختلف، ولا يأمر الحاكم بذلك ولو تراضيا أن تقوّم الكتب ويأخذ كل واحد بعضها بالقيمة بالتراضي يجوز وإلا فلا كذا في جواهر الفتاوى.".(الفتاوى الهندية: كتاب القسمة، الباب في بيان كيفية القسمة (5/ 205)، ط. رشيديه)"وفي الجواهر: لا تقسم الكتب بين الورثة، ولكن ينتفع كل بالمهايأة، ولا تقسم بالأوراق ولو برضاهم، وكذا لو كان كتابا ذا مجلدات كثيرة، ولو تراضيا أن تقوّم الكتب ويأخذ كل بعضها بالقيمة لو كان بالتراضي جاز وإلا لا خانية".(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب القسمة (6/ 261)، ط. سعيد) وإذا قسم الدور فإنه يقسم العرصة بالذراع ويقسم البناء بالقيمة ويجوز أن يفضل بعضهم على بعض لفضل قيمة البناء والموضع لأن المعادلة في القسمة بين الأنصباء واجبة صورة ومعنى ما أمكن وإذا لم يمكن اعتبار المعادلة في الصورة تعتبر المعادلة في المعنى.[الفتاوى الهندية 5/ 209]


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند