• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 609062

    عنوان:

    مورث کی وصیت کے مطابق عمل کے بعد بعض ورثا کا اعتراض

    سوال:

    محترم مفتی صاحب، میرے والد صاحب نے اپنی حیات میں جائیداد کی وصیت مکمل فرما دی تھی اور وصیت کے بعد تقریباً 10 سال تک والد صاحب حیات بھی رہے اور سن2000 میں انکا انتقال ہو گیا اس وقت کسی وارث کو ان کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں تھا اُن کے انتقال کے بعد وصیت پر عمل مکمل کیا گیا اب تقریباً اُن کے انتقال کے 20 سال بعد کچھ وارثین کو اس میں اشکال ہو رہا ہے کہ والد صاحب نے صحیح فیصلہ نہیں کیا جبکہ والدہ حیات ہیں اور والد صاحب کی وصیت کے تحت اُنہونے ے اپنی نگرانی میں سن 2012 میں وارثین کے نام کاغذات ٹرانسفر کرا دیے تھے کیا اتنے سال گزر جانے کے بعد اور تقسیم ہو جانے کے بعد دوسرے وارثین کا اعتراض کرنا درست ہے؟

    جواب نمبر: 609062

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:509-266/TB-Mulhaqa=6/1443

     شریعت نے ورثا کے لیے میراث رکھی ہے ، وصیت نہیں؛ اس لیے اگر کوئی مورث ورثا کے حق میں وصیت کرجائے تو وہ کالعدم شمار ہوتی ہے الا یہ کہ تمام ورثا وفات کے بعد اس کے مطابق عمل درآمد کرنے پر راضی ہوں تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بس شرط یہ کہ ورثا میں کوئی نابالغ یا غیر متوازن العقل نہ؛ لہذا اگرآپ کے والد کی وفات کے بعد، تمام ورثا بالغ وعاقل تھے اور انھوں باہمی رضامندی سے وصیت پر عمل کیا،اس میں کسی طرح کا دباؤ نہ تھاتو صورت مسئولہ میں جو عمل درآمد کیا گیا ہے ، وہ شرعا درست ہے ، اب اس کے خلاف کسی کے اعتراض کا اعتبار نہیں ہے ۔ نوٹ: اگر سوال کی تفصیل کچھ اور ہوتو حکم بدل سکتا ہے ، ایسی صورت میں تمام ورثا کے دستخط کے ساتھ دوبارہ مفصل سوال ارسال کیا جائے ۔

    (ولا لوارثہ وقاتلہ مباشرة) لا تسبیبا کما مر (إلا بإجازة ورثتہ) لقولہ - علیہ الصلاة والسلام - لا وصیة لوارث إلا أن یجیزہا الورثة یعنی عند وجود وارث آخر کما یفیدہ آخر الحدیث وسنحققہ (وہم کبار) عقلاء(الدر المختار مع رد المحتار:10/ 346، کتاب الوصیة، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند