• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 609050

    عنوان: کسی ایک بیٹے کو زیادہ حصہ دینا 

    سوال:

    سوال : میں دو مسائل پر آپ کی اسلامی لحاظ سے رہنمائی چاہتی ہوں سوال : ہم چھ بہن بھائی ہیں ۔ تین بھائی اور تین بہنیں ہیں ایک بھائی کے علاوہ باقی سب کی شادی ہو چکی ہیں۔سب سے چھوٹے بھائی جس کی عمر 35 سال ہے جو 18 سال پہلے رزلٹ میں کم نمبر آنے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گیا اور آہستہ آہستہ ذہنی مریض بن گیا۔ ہم لوگ اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کچھ کماتا نہیں ہے اور ناہی جاب کرسکتا ہے کیوں کہ بیماری کی وجہ سے مستقل مزاج نہیں۔ اس کی طبیعت میں کبھی تیزی اور کبھی سستی ہوتی ہے ۔ ہمارے والد صاحب یہ چاہتے ہیں کہ اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ اس کے نام کر دیں، جسے ابو کا ایک 80 گز اور ایک 55 گز کا پلاٹ ہے جس پر تین فلور کے گھر تعمیر ہیں اور اسی گھر میں رہتے ہیں ( والد، والدہ اور یہ بھائی ایک فلور پر میرے ایک دوسرے بھائی کے ساتھ رہتے ہیں ) والد صاحب چاہتے ہیں کہ 55گز والے پلاٹ پر دو دوکانیں اور اوپر کے فلورگھر جنکا کرایہ تقریباً 35 ہزار آتا ہے ۔ یہ اپنے اس بیٹے کے نام زندگی میں ہے کر دے یا وصیت کر سکتے ہیں کیونکہ اس کا مستقبل آگے کچھ نہیں ہے ۔ شکریہ

    جواب نمبر: 609050

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 738-605/B=06/1443

     حالت حیات میں باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے وہ ہبہ ہوتا ہے، اور ہبہ کے بارے میں حدیث پاک میں آتا ہے کہ سَوُّوا بین أودِلاکم فی العَطِیَّةِ یعنی ہبہ اور عطیہ اولاد کو دو تو برابری کرو تمام اولاد میں لڑکا ہو یا لڑکی برابر برابر حصہ دینا افضل اور بہتر ہے۔ اور اگر بقیہ ورثہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور ایک بھائی کو زیادہ دینے پر سب راضی ہیں تو اس کو زیادہ بھی دے سکتے ہیں یعنی ہبہ کرسکتے ہیں۔

    وصیت اپنی اولاد کو کرنا جائز نہیں۔ حدیث میں آتا ہے لا وصیة لوارث۔ یعنی وراث کے لیے وصیت جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند