معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 608737
بغیر تقسیم میراث گھر میں خرچ کرنا
سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میرے والد صاحب مفتی ابو ظفر قاسمی صاحب رحمہ اللہ کا انتقال ہوا ۲۹ دسمبر کو۔ انہوں نے اپنے ورثہ میں ۳ لڑکے اور ایک لڑکی کو چھوڑا ہے ۔ میری بیٹی کی شادی ہوگئی وہ ۲۶ سال کی ہے اور بیٹوں میں ایک ۲۳ سال کا ہے اور دوسرا ۲۱سال کا ہے اور تیسرا ۱۳ سال کا ہے ۔ میرے تینوں بیٹے میرے ساتھ رہتے ہیں۔ تینوں بیٹے ابھی بھی پڑھائی کر رہے ہیں۔ مجھے جاننا ہے کہ جو پیسہ میرے شوہر چھوڑ کر گئے ہیں کیا میں اس پیسوں سے گھر کے اخراجات میں استعمال کرسکتی ہوں جیسے کہ کھانے پینے کے سامان ، گھر کا کرایہ، بل ، ٹیکس؟ یا سب کا حصہ کر لینا چاہیئے ؟ میں اس وقت بہت پریشان ہوں۔ بڑی مہربانی ہوئے گی اگر اس سوال کا جواب مجھے جلد از جلد مل جائے ۔
جواب نمبر: 608737
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 762-527/H=06/1443
استفتاء کے شروع میں والد صاحب رحمہ اللہ غالباً غلطی سے لکھا گیا بظاہر آپ کے شوہر مرحوم کا انتقال ہوا ہے اگر ایسا ہی ہے تو حکم یہ ہے کہ بعد اداءِ حقوق متقدمہ علی المیراث و صحت تفصیل ورثہ مرحوم کا کل مالِ متروکہ آٹھ حصوں پر تقسیم کرکے دو- دو حصے تینوں بیٹوں کو ملیں گے، ایک بیٹی کو ملے گا اور ایک ہی حصہ آپ (بیوہ) کو ملے گا۔ پہلے شرعی تقسیم کے لحاظ سے مال تقسیم کرلیں اور بیٹی کا حصہٴ شرعیہ نکال کر اس کو دیدیا جائے پھر جو ورثہ (اولاد اور آپ) مشترک رہ رہے ہیں ان کی اجازت سے ہر ایک کے حصہ میں سے لے کر مشترکہ اخراجات پورے کرتی رہیں اس میں کچھ حرج نہیں۔ اگر انتقال والد مرحوم کا ہوا ہو تو پھر صاف صحیح واضح انداز پر استفتاء لکھ کر دوبارہ بھیجیں نیز مرحوم نے اپنے والدین دادا، دادی نانی میں سے بھی کسی کو چھوڑا ہو تو اس کی بھی صراحت کردیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند