• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 608649

    عنوان: ترکہ کی تقسیم 

    سوال:

    سوال : کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ازروئے شریعت اس مسئلہ کے ضمن میں کہ مرحوم زید کے 2 بیٹے 4 بیٹی ہے ۔ زید کے 3 مکان تھے ۔ مکان نمبر1 مکان نمبر 2 مکان نمبر 3 ، زید نے اپنی حیاتی میں اپنی جائیداد کی تقسیم کرنے کے لیے پنچا ئیت بٹھائی ۔ پنچائیت میں زید نے یہ شرط رکھی کہ جو بیٹا میری( زید) میری بیوی اور میری بیٹی کی تاحیات زمہ داری سنبھالنے (کھانا پینا کپڑا دواعلاج اور آخری وقت تک ) لیتا ہے تو مکان نمبر 1 اس بیٹے کے حصہ میں ہے اور جو مجھے میری بیوی اور بیٹی کو نہیں سنبھالے گا ۔مکان نمبر 2 اس بیٹے کے حصہ میں ہے ۔اور مکان نمبر 3 فروخت کرکے بیٹیوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ مکان نمبر 12 کو قانونی طور پر اپنی ملکیت میں شامل کرنے کے لیے جو خرچ آئے گا۔ وہ بیٹے اپنی جیب خاص سے کریں گے ۔ مکان نمبر 1 کو بڑے بیٹے نے لینے سے انکار کر دیا۔ تب زید نے اپنی حیاتی میں مکان نمبر 1 دو گواہوں کے ساتھ باقاعدہ قانونی طور پر کورٹ سے اپنی راضی خوشی سے اپنے چھوٹے بیٹے کی ملکیت میں دیا اور کہا کہ مکان نمبر 1 تیرا ہے ۔ سوال : مکان نمبر 1 میں زید کے وارثین کا حصہ ہوگا یا نہیں؟

    جواب نمبر: 608649

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 598-467/M=06/1443

     اگر سوال صرف مکان نمبر 1 کے بارے میں ہے تو جواباً عرض ہے کہ اگر زید (باپ) نے اپنی حیات میں مکان نمبر 1 کو اپنی خوشی سے قانونی طور پر اپنے چھوٹے بیٹے کے نام کرنے کے ساتھ عملی طور پر بھی اس کو قبضہ و دخل دیدیا تھا اور خود (زید) اس مکان سے لاتعلق ہوگئے تھے تو مکان نمبر 1 چھوٹے بیٹے کی ملکیت ہوگئی، اس میں دوسرے بھائی بہنوں کا کوئی حصہ نہیں اور اگر زید نے چھوٹے بیٹے کو صرف کاغذی اعتبار سے نام کیا تھا، عملی طور پر مالک و قابض نہیں بنایا تھا تو مکان نمبر 1 زید ہی کی ملکیت برقرار رہی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند