معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 607989
۲/ بیٹے اور ۲/ بیٹیوں کے درمیان وراثت کی تقسیم
کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارے داداشریف احمدمرحوم کا انتقال ہوا انہوں نے اپنے ورثہ میں دولڑکے محمدنواب اورمحمدافسر اسی طرح دوبیٹیاں ریاض فاطمہ اوراظہارفاطمہ کوچھوڑا مرحوم نے 32گز زمین چھوڑی ہے معلوم یہ کرناہے کہ ہر وارث کوشرعی اعتبارسے کتناکتنا ملے گا جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں۔
جواب نمبر: 607989
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:232-161/H-Mulhaqa=5/1443
مرحوم شریف احمد نے اگر اپنے وارثین میں صرف ۲/ بیٹے اور ۲/ بیٹیاں چھوڑی ہیں، مرحوم کی بیوی، ماں، باپ، دادا، دادی اور نانی، اِن سب کا انتقال مرحوم سے پہلے ہی ہوچکا ہے تو مرحوم کا سارا ترکہ (بہ شمول: سوال میں مذکور ۳۲/ گز زمین) بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۶/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے ۲، ۲/ حصے ہر بیٹے کو اور ایک، ایک حصہ ہر بیٹی کو ملے گا۔
قال اللّٰہ تعالی:﴿یوصیکم اللّٰہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾ (سورة النساء، رقم الآیة: ۱۱)۔
ثم العصبات بأنفسھم أربعة أصناف: جزء المیت ثم أصلہ ثم جزء أبیہ ثم جزء جدہ ویقدم الأقرب فالأقرب منھم بھذا الترتیب، فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وإن سفل إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، ۱۰: ۵۱۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
ویصیر عصبة بغیرہ البنات بالابن إلخ (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، ۱۰: ۵۲۲)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند