معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 607787
اپنی زندگی میں اپنے بچوں پر مال کتنا اور کیسے خرچ کریں؟
سوال : ایک عورت اپنی جائیداد سے بیٹوں کو پڑھایا، بیٹیوں کی شادیاں کی ، اب وہ چاہ رہی ہیں کہ اپنی زندگی میں بیٹوں کو تجارت کے لئے اپنی جائیداد میں سے کچھ مال دے کر ان کی مدد کریں، شریعت میں اس کا کیا حکم ہے ؟ اپنی زندگی میں اپنے مال میں سے وہ اپنے بچوں میں یا کسی جگہ کتنا اور کیسے خرچ کریں ؟
جواب نمبر: 60778705-Dec-2021 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 461-329/D=04/1443
زندگی میں دینا ہبہ کہلاتا ہے اور ہبہ کرنے میں مستحب یہ ہے کہ حسب موقعہ ہر لڑکے لڑکی کو برابر برابر دے، بلاضرورت شرعی کمی زیادتی کرنا مکروہ ہے، مثلاً کسی کے محتاج ہونے یا زیادہ خدمت گذار ہونے کی وجہ سے اسے کچھ زیادہ دیدیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرے شوہر نے پندرہ سال پہلے دو لاکھ روپیہ میں ایک فلیٹ خریدا جس میں ستر ہزار قرض لے کر دیا۔ دو سال بعد میری ساس نے اپنا ذاتی فلیٹ اس شخص کو دے دیا جس نے میرے شوہر کو قرض دیا تھا لیکن کبھی انھوں نے ستر ہزار کا تقاضہ نہیں کیا۔ دس سال کے بعد ساس کا انتقال ہوگیا تو کیا اب میرے شوہر کو ستر ہزار وارثوں کو دینا ہوگا؟
1704 مناظرایک صاحب کے چند بیٹے ہیں جن میں سے سوائے ایک بیٹے کے سب بے روزگار ہیں، ایک بیٹا ان میں سے روزگار پر ہے جس سے وہ اپنی کمائی سے جائداد بنایا ہے۔ اب باپ جبراً اپنے جائداد والے بیٹے سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس کی ساری جائداد اپنے سب بیٹوں میں تقسیم کردیں تاکہ وہ بھی کشادہ حال ہوجائیں، اور یہ از روئے شرع ناجائز ہے۔ از رائے کرم شریعت کی روشنی میں حقیقت جواب واضح فرمائیں۔
2699 مناظرہم چھ بھائی ہیں ، ہمارے والد اور والدہ کا انتقال تقریبا ۲۵/ سال پہلے ہوا ہے۔ ہمارے تیسرے نمبر کے بھائی جناب امیر امین والد کے ساتھ بزنس سنبھالتے تھے اور اپنے ساتھ پانچویں نمبر کے بھائی راشد امین کو بھی رکھتے تھے ۔ والد اور والدہ کے انتقال کے بعد ان دنوں بھائیوں نے دکان ومکان کا حصہ اپنے من کے مطابق لے کر چار بھائیوں کو تھوڑا بہت دے کر الگ کر دیا۔ ہم لوگوں کے اعتراض کرنے پر دونوں بھائیوں نے کہا کہ ہم والد کے ساتھ بزنس سنبھا لتے تھے ، اس لیے ہمارا حصہ ڈبل بنتاہے، اس لیے امیر امین اور راشد امین نے ڈبل حصہ لیا جبکہ سارا بزنس والد کے ہی کا بنایا ہوا تھا۔ میں عادل امین بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا ہوں۔ ہم امید کرتے ہیں آپ اس کا جواب ڈاک کے ذریعہ ہمارے گھر کے پتہ پر ارسال کریں کہ شریعت کے حساب سے ہم بھائیوں میں کیا حصہ بنتاہے؟
2558 مناظرمیں ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہوں۔ میرے ایک شوہر دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ میرے تمام بچے شادی شدہ ہیں۔ میں نے 19x33 فٹ ایریا کا ایک مکان تعمیر کیا ہے جس میں تہہ خانہ ، گراؤنڈ فلور، فرسٹ فلور، اور سکنڈ فلورہیں۔ میں نے اوپر مذکور پلاٹ کو اپنی تنخواہ سے خریدا تھا۔ اس کی تعمیر میں تقریباً میں نے ستر فیصد خرچ کیا ہے جب کہ باقی میرے بڑے لڑکے نے دیا ہے۔ اب پراپرٹی میرے نام پر ہے۔ جب کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اس لیے میں اوپر مذکور پراپرٹی اپنے بچوں کے نام کرنا چاہتی ہوں، یعنی تہہ خانہ اور گراؤنڈ فلوراپنے بڑے لڑکے کے نام اور فرسٹ اور سکنڈ فلور اپنے دوسرے لڑکے کے نام کرنا چاہتی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اوپر مذکور پراپرٹی اپنے دونوں لڑکوں کو بطور تحفہ کے یا وصیت کے طور پر دے سکتی ہوں؟ برائے کرم جواب عنایت فرماویں۔
1395 مناظرزید کی دس اولادیں ہیں۔ چار لڑکے اور چھ
لڑکیاں۔ اس کے انتقال کو سترہ سال ہوچکا ہے۔ لیکن ابھی تک اس کی وراثت کی تقسیم نہیں
ہوسکی۔ ان دس اولادوں میں سے صرف ایک اولاد کو ہی زید کی وراثت کے بارے میں پوری
طرح معلوم ہے اور باقی نو بہن بھائیوں کو زید کے ترکہ کا پورا علم نہیں ہے۔ جس ایک
اولاد کو زید کے ترکہ کا علم ہے اس کے مطابق زید نے اپنے دو فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ
اسے ہبہ کر دیا تھا۔ لیکن اس باعلم اولاد کے پاس ہبہ کی نہ کوئی تحریری دستاویز ہے
اور نہ ہی کوئی گواہ۔ ہبہ کے لیے اس کے پاس ایک قرینہ ہے جسے تملیک پر دلالت کے لیے
سمجھا جارہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس فلیٹ کا بل اس کے نام پر زید کی زندگی میں ہی ہوگیا
تھا۔ لیکن زید کی نیت فلیٹ کا بل اس کے نام بنواتے وقت ہبہ کی ہوگی یہ کیسے مانا
جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے زید کی نیت ہبہ کی نہ ہوکر کوئی دوسری وجہ ہو جس کے لیے اس فلیٹ
کا بل اس لڑکے کے نام کیا گیا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس لڑکے نے زید کو کوئی طریقہ
سے بہلا پھسلا کر یا زید کی لا علمی میں فلیٹ کا بل اپنے نام کروالیا ہوگا۔ فلیٹ
کے بل کو قرینہ ماننا کہاں تک صحیح ہے؟زید کی اس با علم اولاد کے اس دعوے کے
مقابلہ میں اس کے باقی ماندہ بھائی بہنوں کے پاس بھی کوئی گواہ یا ثبوت نہیں ہے کہ
زید نے وہ فلیٹ اسے ہبہ نہیں گیا ہے۔ ...