• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 607641

    عنوان:

    وصیت اور وراثت سے متعلق سوال

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں؟ ایک شخص کی پہلی بیوی سے ایک بیٹا ہوا، اس بیوی کی وفات کے بعد اس کی دوسری شادی کرنے پر دو بیٹے اور ایک بیٹی موجود ہیں۔ دو سال پہلے اس شخص نے پورے ہوش و حواس میں وصیت کورٹ سے ایک گواہ بناکر کاغذی طور پر کی تھی کے میری وفات کے بعد ساری چیز کا حقدار اور مالک میری یہ دوسری بیوی ہو گی۔ اور ایسا ہی ہوا بھی۔ تو اب اس زمین ، جائیداد کی رسید انہی یعنی دوسری بیوی کے نام سے سرکاری طور پر کاٹی جا رہی ہے ۔ تو کیا پہلی بیوی کے بیٹے کو حصّہ دینا یہ دوسری ماں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اسے حصّہ دے ؟ جبکہ اُس لڑکے کا باپ اسے اس جگہ حصہ نہیں دینا چاہتا تھا، کیونکہ وہ باپ کا کافی زیادہ نافرمان تھا اور اس کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، یہاں تک کہ وہ اپنے باپ سے لڑنے اور مار پیٹ کرنے تک کی سوچتا تھا، وہ باپ کو باپ نہیں سمجھتا تھا۔ دوسری ماں کو ماں تک صحیح سے نہیں سمجھتا تھا۔ حتیٰ کہ دوسری بیوی سے جو تین بچے موجود ہیں، اگر اُنکے ساتھ حصّہ دیکر اُس پہلی بیوی کے لڑکے کو بسایا جاتا تو اُسکی حرکت اور بداعمالی کی وجہ سے ان تینوں کی جان کا بھی خطرہ موجود تھا۔ یعنی بڑے خطرے کا پورا اندیشہ اِس باپ کو تھا۔ تو اسلیئے باپ نے اس بیٹے کے لئے دوسری والی بیوی جو موجود ہے اسے کہا کہ اِسکے لئے گھر اور رہنے کا انتظام کسی اور جگہ یعنی دوسری جگہ کروادینا، یہاں اس جگہ اسکو زمین جائیداد میں کوئی بھی حصّہ مت دینا۔ تو ان تمام حالات میں اسلام کا نظریہ کیا ہے ؟ مجھے بتائیں کہ زمیں کی رسید جو اِس دوسری بیوی کے نام سے کاٹی جا رہی ہے ۔ تو ان تمام حالات کے بعد اگر اسلام اسے قبول نہیں کرتا۔ یا۔ اسے منسوخ کرنے کا حکم دیتا ہے ، تو اس کی کیا وجہ ہے ؟ اور اس آدمی کا کیا ہوگا جس کا حق 1/3 مرنے سے تھوڑا پہلے تک کے لئے بھی وصیت کا ہوتا تھا۔ لیکن یہاں تو اسنے دو سال پہلے کورٹ سے ایک گواہ کے سامنے وصیت کیا تھا اور اُسکی ایک بڑی وجہ بھی موجود ہے ؟ تو دوسری بیوی کو 1/3 بھی دیا جائے گا یا نہیں؟ اور نہیں تو پھر کیوں؟ تفصیلی وضاحت فرمائیے ؟ اور کیا اس لڑکے کو اتنا ہی ملنا چاہیے جو باپ نے اپنے اُس پہلی اولاد کے لئے زبانی طور پر رہنے کے لئے ایک مکان کے لئے بولا تھا ۔

    جواب نمبر: 607641

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:144-29T/H-Mulahqa=5/1443

     (۱- ۴): مذہب اسلام میں کسی وارث کے لیے وصیت درست نہیں اگرچہ وہ تہائی ترکہ کے اندر ہو، اور غیر وارث کے لیے تہائی سے زیادہ کی وصیت درست نہیں؛ البتہ دونوں صورتوں میں اگر مرحوم کی وفات پر سب وارث اپنی مرضی وخوشی سے راضی ہوں تو درست ہوجائے گی، پس صورت مسئولہ میں مرحوم نے اپنی وفات سے ۲/ سال پہلے اپنی دوسری بیوی کے لیے جو اپنی تمام املاک: زمین وجائداد وغیرہ کی وصیت کی ہے، یہ شرعاً درست نہیں، اس وصیت کے باوجود شریعت کا حکم یہ ہے کہ مرحوم کا سارا ترکہ بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث حسب شرع جملہ وارثین میں تقسیم کیا جائے اور مرحوم کا مذکورہ زمین وجائداد سے بڑے بیٹے کو کچھ نہ دینے کی زبانی وصیت کا بھی شرعاً کچھ اعتبار نہیں اگرچہ وہ بیٹا باپ کا نافرمان اور اُنھیں تکلیف واذیت پہنچانے والا رہا ہو؛ البتہ اگر وہ توبہ نہیں کرے گا تو آخرت میں ماخوذ ہوگا، بہر حال صورت مسئولہ میں دوسری بیوی کی شرعی ذمے داری ہے کہ وہ مرحوم کے بڑے بیٹے کو اس کا شرعی حصہ دے ، اور اگر اس بیٹے کا باپ شریک بہن یا بھائیوں کے ساتھ رہائش کرنا مصلحت کے خلاف ہے تو خاندان کے معزز لوگوں کے مشورے سے اُسے اس کے حصے کا مناسب پیسہ دیدیا جائے کہ وہ کسی دوسری جگہ اپنا خود انتظام کرے یا اُس کے حصے سے اُس کے لیے دوسری جگہ مکان یا زمین وجائداد کا نظم کردیا جائے۔

    عن أبي أمامة قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول في خطبتہ عام حجة الوداع: ”إن اللہ قد أعطی کل ذي حق حقہ، فلا وصیة لوارث“ رواہ أبو داود وابن ماجة، وزاد ابن عباس عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”لا وصیة لوارث إلا أن یشاء الورثة“ منقطع، ھذا لفظ المصابیح، وفي روایة الدار قطني قال: ”لا تجوز وصیة لوارث إلا أن یشاء الورثة“ (مشکاة المصابیح، کتاب الوصایا، الفصل الثاني، ص: ۲۶۵، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    (ولا لوارثہ …)…(إلابإجازة ورثتہ) لقولہ علیہ الصلاة والسلام:” لا وصیة لوارث إلا أن یجیزھا الورثة“(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوصایا،۱۰: ۳۴۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    وتجوز بالثلث للأجنبي وإن لم یجز الوارث ذلک لا الزیادة علیہ إلا أن تجیز ورثتہ بعد موتہ وھم کبار (تنویر الأبصار مع الدر المختار ورد المحتار، کتاب الوصایا، ۱۰: ۳۳۹، ۳۴۰)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند