• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606313

    عنوان: دادا ،باپ اور چچا کی مشترکہ جائداد کی تقسیم 

    سوال:

    باسمہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ میں کہ میں محمد ارشد میرے دادا حاجی عزیز الرحمٰن مرحوم قصبہ کوپاگنج کے ایک بڑے تاجر تھے ۔ایک کپڑے کی بڑی دوکان تھی، چار پانچ ضلع مال سپلائی ہوتاتھا، اس پر میرے والدحاجی انیس الرحمٰن صاحب بیٹھتے تھے ۔ اور بازار میں ایک ریٹیل کی دوکان تھی، جس پر ہمارے چچا حاجی سعید الرحمن صاحب بیٹھتے تھے اور ایک لنگی کی دوکان تھی جس پر ہمارے چچا حاجی نفیس الرحمٰن اور حاجی جمیل الرحمٰن صاحبان بیٹھتے تھے اور چھوٹے چچا مولانا جمال احمد صاحب ندوة میں زیر تعلیم تھے اور مال کی خریداری ہمارے والد صاحب کبھی کسی چچا کو اور کبھی کسی چچا کو لے کر کرتے تھے اور ہر ایک چچا ایک دوسرے کے کاروبار کی دیکھ ریکھ میں شریک رہا کرتے تھے ۔ 1992 ء میں ہمارے دادا کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی جائداد ان کی اولاد میں تقسیم نہیں ہوسکی تھی اور ان کی جائداد کی تفصیل آگے درج ہیں: میرے دادا کے انتقال کے بعد میرے والد حاجی انیس الرحمٰن بھائیوں میں سے بڑے تھے ، وہ کاروبار کی دیکھ ریکھ کے لیے بحیثیت مالک ذمہ دار قرار دیئے گئے ، والد صاحب کی زندگی میں بھی بہت سی مشترکہ جائداد خریدی گئی، جس کی تفصیلات بھی آگے درج ہے ۔ کپڑے کے فرم انصاری کلاتھ اسٹور اور نفیس ٹیکسٹائل (برائے لنگی) میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کاروبار کو مزید وسعت دینے کے لیے حاجی نفیس الرحمٰن کو لے کر سورت پہنچے ، جہاں سے ہمارا کپڑوں کا کاروبار ۳۵/سال سے چل رہاتھا، وہاں سے دھاگے کے نئے کاروبار کا معاہدہ ہوا، جس کے پروپرائٹر میں (محمد ارشد) تھا۔ اس سلسلے میں ہمارے والد،چچا حاجی نفیس الرحمٰن کو لے کر ملک اور بیرون ملک سفر بھی کیاکرتے تھے ، اور کوپاگنج مئو میں تمام کاروبار کی نگرانی بھی کرتے تھے ۔ 2008ء میں ہمارے والد حاجی انیس الرحمٰن انتقال کرگئے ۔ میرے چھوٹے بھائی مناظر احسن کو تعلیمی کورس پورا کرنے میں ایک سہ ماہی کورس باقی تھا، مگر ہمارے چچا حاجی نفیس الرحمٰن نے کہا کہ تم کو اب کاروبار میں شامل ہوکر پوری دیکھ ریکھ کرنا ہے اور کاروبار کو آگے بڑھانا ہے ۔تینوں بھائیوں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ دن ورات کام کی دیکھ ریکھ کرتے رہے اور آگے بڑھاتے رہے ۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے کام ہی نہیں کیاہے ۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد بھی مشترکہ کاروبار رہاہے ، اور بہت سی جائدادیں بھی خریدی گئیں، کچھ ہم تینوں بھائیوں کے نام، کچھ والدہ کے نام اور کچھ چچا لوگوں نے اپنے نام سے خریدیں ۔ 2021ء تک نئے سال میں قربانی بھی مشترکہ کاروبار سے ہی ہوئی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ دادا کی جائداد سے لے کر اب تک کی جائداد کا بٹوارہ ہمارے بھائیوں اور چچا کے درمیان شریعت کی روشنی میں کس طرح ہوگا؟ واضح رہے کہ ہمارے چچا وغیرہ کا کہنا ہے کہ تم لوگوں کا بٹوارہ تمہارے والد کی حیات تک کی جائداد وبزنس کا ہوگا، اس لیے کہ تم لوگوں نے مطلوبہ انداز کی محنت سے کام نہیں کیاہے ۔ کیا ان کا یہ کہنا شرعاً درست ہے ؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب مطلوب ہے ۔ محمد ارشد، مناظر احسن، اسعد انیس پسران حاجی انیس الرحمٰن مرحوم محلہ بازید پورہ کوپاگنج،ضلع مئو ۲۱/۸/۲۰۲۱ء جائداد کی تفصیلات (۱) دادا کی زندگی کی جائداد کی تفصیل: ۱۔ ان کی ملکیت میں پرانا مکان جس میں حاجی سعید الرحمٰن صاحب رہ رہے ہیں۔ ۲۔ قبرستان کے پاس ایک قطعہ زمین۔ ۳۔ پٹرول پمپ کے پاس ایک قطعہ زمین۔ ۴۔ ایک قطعہ زمین۔ ہمارے چھوٹے دادا قاری محفوظ الرحمٰن صاحب کی تھی، اس کو والد صاحب کے انتقال کے بعد امی کے نام خریدی گئی۔ ۵۔ ایک قطعہ مکان جس میں لنگی اور تھوک کپڑے کا کاروبار تھا، اور اوپر ہمارے ابو اور چچا حاجی نفیس الرحمٰن صاحب کی رہائش بھی تھی۔ ۶۔ جس میں ریٹیل کپڑے کی دوکان تھی (بازار میں کوپاگنج) ۷۔ چار منڈہ کھیت جو دادا کی چاروں لڑکیوں کو ایک ایک منڈہ دیاگیا۔ ۸۔ دادا کے وقت کی کوپاگنج میں ایک کرایہ کی دوکان شاہی منڈی میں ہے ۔ اور کرایہ کی دوسری دوکان مئو میں بابا گلی نعیم کٹرہ میں ہے ۔ اور ایک دوکان چشمہ گھر کے اوپر ہے جس پر مناظر احسن بیٹھتے ہیں۔ ۹۔ ایک قطعہ زمین جس میں لنگی کی پیکنگ ہوتی تھی، جو دومنزلہ مکان ہے ۔ (۲) حاجی انیس الرحمٰن کی زندگی کی جائداد کی تفصیل: ۱۔ شاہی کٹرہ مئو کی زمین جو دادا کے پانچوں اولادوں کے نام سے لی گئی ہے ۔پانچوں کی نگرانی میں اس کی تعمیر بھی ہوئی۔ ۲۔ جس مکان میں حاجی جمیل الرحمٰن صاحب رہتے ہیں وہ خریدی گئی۔ ۳۔ جس مکان میں محمد ارشد وغیرہ رہتے ہیں وہ خریدی گئی۔ ۴۔ مئو میں ماتا پوکھرا کے بغل میں ایک قطعہ زمین۔ ۵۔ راجا رام پورہ میں ایک قطعہ زمین۔ ۶۔ ادری میں ایک قطعہ زمین۔ ۷۔ ایک گڑھی خریدی گئی جس میں مچھلی وغیرہ پالی جاتی تھی۔ (۳) حاجی انیس الرحمٰن صاحب کے وفات کے بعد کی جائداد: ۱۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد مشترکہ فرم سے کچھ جائدادیں خریدی گئیں، جن میں کچھ ہم تینوں بھائیوں کے نام سے ہے ۔ اور کچھ امی کے نام سے ہے اور کچھ چچالوگوں کے نام سے ہے ۔ ۳۔ کچھ جائدادیں پردہٴ خفا میں ہیں اور کچھ نقود اور کچھ صحیح کاروباری پوزیشن کی جانکاری صرف ہمارے چچا حاجی نفیس الرحمٰن کو ہے ۔

    جواب نمبر: 606313

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 156-44T/D=02/1443

     اگر سوال میں مذکورہ تفصیلات واقع کے مطابق ہیں کہ اصل کاروبار آپ کے دادا (حاجی عزیز الرحمن مرحوم) نے اپنے سرمایے سے شروع کیا تھا، جس میں ان کے چار بیٹے معاون و مددگار تھے، دادا کے انتقال کے بعد کاروبار کو تقسیم نہیں کیا گیا، تاآں کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا، والد کے انتقال کے بعد آپ تینوں بھائی (ابناء حاجی انیس الرحمن مرحوم) چچاوٴں کی معاونت کرنے لگے، تو اس بارے میں حکم شرعی یہ ہے کہ آج موجودہ مکمل کاروبار آپ کے دادا (حاجی عزیز الرحمن مرحوم) کا ترکہ شمار ہوگا، جس میں انتقال کے وقت موجود تمام وارثین کو شریعت کے مطابق حصہ ملے گا، پھر اس میں سے جتنا آپ کے والد (حاجی انیس الرحمن مرحوم) کے حصے میں آئے گا وہ ان کے وارثین میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا، اس سے معلوم ہوگیا کہ آپ کے والد کی زندگی تک جو کاروبار تھا تقسیم محض اس کی نہیں؛ بلکہ موجودہ تمام کاروبار کی ہوگی، اور اسی میں سے سب وارثوں کو مذکورہ بالا تفصیل کے موافق حصہ ملے گا۔

    نوٹ:۔ اگر سوال میں مذکورہ تفصیل سے کسی شریک کو اختلاف ہو تو پھر تمام شرکاء کے دستخط کے ساتھ مشترکہ سوال نامہ بھیجیں۔

    فی درر الحکام شرح مجلة الأحکام: ویوجد ثلاثة شروط لأجل اعتبار الولد معیناً لأبیہ: ۱- اتحاد الصنعة ․․․․ ۲- فقدان الأموال سابقاً ․․․․․․ ۳- أن یکون الابن في عیال أبیہ، ․․․․․․ وتعبیر ”ولدہ“ لیس احترازیاً، فالحکم في الزوجة والإخوة علی الوجہ المذکور أیضاً۔ (3/421، تحت المادة: 1398)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند