• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606243

    عنوان:

    والدین اپنی حیات میں جائیداد تقسیم کریں تو کتنا کتنا حصہ دیں؟

    سوال:

    مسئلہ وراثت، ایک شخص کے پانچ (5) بیٹے اور پانچ (5) بیٹیاں ہیں جس میں سے چار (4) بیٹیاں شادی شدہ اور دو (2) بیٹے شادی شدہ ہیں۔ اس شخص کے پاس چھ سو (600)گز زمین ہے والد والدہ حیات سے ہیں وہ اپنی موجودگی میں زمین کو اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں اس زمین میں کسی دوسرے شخص کا کچھ بھی دخل نہیں ہے ۔ تو یہ زمین اولاد کے درمیان کتنا کتنا تقسیم ہوگا۔ مکمل اور مفصل جواب تحریر فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 606243

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:160-109/N=2/1443

     آدمی اپنی زندگی میں اپنی تمام املاک: زمین وجائداد وغیرہ کا تن ِتنہا مالک ہوتا ہے، اس کی زندگی میں اُس کی کسی ملکیت میں کسی اولاد یا بیوی کا مالکانہ کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا؛ اسی لیے وراثت کا حکم وفات پر ہوتا ہے، زندگی میں نہیں؛ لہٰذا جب شخص مذکور ابھی باحیات ہے تواُس کی کسی ملکیت : زمین وجائداد وغیرہ کے بٹوارے کی ضرورت نہیں، نیز جب ابھی ۳/ بیٹے اور ایک بیٹی کی کی شادی باقی ہے تو پہلے اِن کی شادی کی فکر کرنی چاہیے، اور اگر وہ اپنی تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر اپنی املاک اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہے یا جب بہ قضائے الہٰی اُس کی وفات ہوجائے تو اُس وقت شخص مذکور کے جو شرعی وارث ہوں، اُن کی تفصیل لکھ کر شرعی تقسیم معلوم کرلی جائے۔

    قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”کل واحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین“ (السنن الکبری للبیہقی،۷: ۷۹۰)۔

    الملک ما من شانہ أن یتصرف فیہ بوصف الاختصاص (رد المحتار، أول کتاب البیوع ۷:۱۰ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    کل یتصرف في ملکہ کیفما شاء ( مجلة الأحکام العدلیة مع شرحھا: درر الحکام، ۳۱: ۲۰۱)۔

    اعلم أن أسباب الملک ثلاثة:ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰:۴۷)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند