• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 606064

    عنوان:

    کیا غیر مسلم والد کی وراثت میں حصہ ہے؟

    سوال:

    ندیم کے والد صاحب کا انتقال ہوگیاہے اور ان کے والد صاحب قادیانی تھے اور اسی ایمان پہ ان کا انتقال ہواہے تو کیا ندیم کے لیے والد صاحب کا وراثت لینا صحیح ہوگا؟ماں اور بچے دونوں ایمان سے اہل سنت ہیں، اور اگر وراثت لینا صحیح نہیں ہے تو پھر وراثت کا کیا کریں؟

    جواب نمبر: 606064

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 42-29T/D=02/1443

     اگر وہ شخص ابتداء سے ہی قادیانی تھا تو مسلمان ورثہ اس کے وارث نہیں ہوں گے، اس لیے کہ مسلمان اور غیرمسلم کے درمیان وراثت جاری نہیں ہوتی، نہ مسلمان غیرمسلم کا وارث ہوتا ہے نہ غیرمسلم مسلمان کا۔ فی الشریفیة: المانع من الإرث أربعة: الرق ․․․․․ واختلاف الدینین، فلا یرث الکافر من المسلم إجماعاً ولا المسلم من الکافر علی قول علي وزید بن ثابت وعامة الصحابة - رضوان اللہ علیہم - وإلیہ ذہب علماوٴنا والشافعي رحمہم اللہ، لقولہ علیہ السلام: لا یتوارث أہل ملتین شتی۔ (ص: 21، مطبوعہ مصر) نیز: إمداد الأحکام: 4/617، مسئلہ میراث و حکم المیراث من القادیانی وغیرہ)

    اور مرنے والے شخص کا جو ترکہ ہے وہ ”مال فیٴ“ کے حکم میں ہوکر بیت المال میں رکھا جائے گا۔ اور اگر وہ شخص پہلے مسلمان تھا، بعد میں مرتد ہوکر قادیانی بنا (أعاذنا اللہ منہ) تو جو مال حالت اسلام میں اس کی ملکیت میں تھا، یا اس نے کمایا تھا، وہ مسلمان ورثہ کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم ہوگا۔ اور جو مال مرتد ہونے کے بعد اس نے کمایا، یا اس کی ملکیت میں آیا وہ ”مال فیٴ“ کے حکم ہوکر بیت المال میں جمع ہوگا۔

    في الشریفیة: إذا مات الرجل المرتد علی ارتدادہ ․․․․․ فما اکتسبہ في حال إسلامہ فہو لورثة المسلمین، وما اکتسبہ في حال ردتہ یوضع في بیت المال، ہذا حکمہ عند أبي حنیفة ․․․․․․ (ص: 225، فصل في المرتد)

    آج کل چوں کہ بیت المال کا وجود نہیں ہے اس لیے ازخود اس مال کو ”مال فیٴ“ کے مصرف یعنی خیر کے کاموں میں صرف کردیا جائے۔ (امداد الفتاوی: 9/613 جدید، سوال: 2746، امور خیر میں صرف کرنا بیت المال کے قائم مقام ہے)۔

    البتہ اگر مسلمان وارث غریب (مستحق زکات) ہے تو پھر وہ قادیانی باپ کے چھوڑے ہوئے مال کو لے سکتا ہے۔ غریب ہونے کی وجہ سے وہ بیت المال کا مصرف بن جائے گا۔

    فی ردا لمحتار: مطلب فیمن لہ حق في بیت المال وظفر بشیء من بیت المال: ونقل في القنیة عن الإمام الوبري أن من لہ حظ في بیت المال ظفر بما لہ وجہ لبیت المال فلہ أن یأخذہ دیانة اھ۔ ونظمہ في الوہبانیة۔ وفي البزازیة: قال الإمام الحلواني: إذا کان عندہ ودیعة فمات المودع بلا وارث لہ أن یصرف الودیعة إلی نفسہ في زماننا، لأنہ لو أعطاہا لبیت المال لضاعت؛ لأنہم یصرفونہ مصارفہ، فإذا کان من أہلہ صرفہ إلی نفسہ وإلا صرفہ إلی المصرف ۔ (6/265، ط: زکریا، کتاب الجہاد، باب المغنم وقسمتہ)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند