• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 605992

    عنوان:

    وراثت میں حق کتنا بنتا ہے ؟

    سوال:

    میرانام ثمینہ پر وین ہے ۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری شادی محمد عادل سے نومبر ۲۰۰۹میں ہوئی تھی ، میرے ساس سسسر دونوں نہیں تھے ۔یہ فقط تین بھاء تھے ،محمد اطہر ،محمد عادل ، اور محمد عامر ، انکی کوئی بہن نہیں ہے۔محمد اطہر میرے جیٹھ تھے اور انکی بیوی شاذیہ میری جیٹھانی تھیں اور یہ دونوں لاولد تھے ۔محمد عامر میرے دیور ہیں اور ابھی انکی شادی نہیں ہوئی ہے ،میرے شوہر کا انتقال ماہ مارچ میں ہو گیا تھا ، ۲۰۰۱۵میں ۔میری ایک بیٹی عریشہ عادل ہے عمر ۱۰سال کی ہے اور ایک بیٹا محمد ارحم عادل ۵سال کا ہے بیٹا شوہر کے انتقال کے بعد پیدا ہوا تھا اور میرے شو ہر کے انتقال کے سوا سال بعد یعنی جون ۲۰۰۱۶میں میرے جیٹھ کا بھی انتقال ہو گیا تھا اور جیٹھانی بھی بیوہ ہو گئی تھیں۔میں جس گھر میں رہتی ہوں یہ میرے سسر کا تین منزلہ مکان ہے جسی زریں منزل ہال نما ہے اور یہ مشتر کہ استعمال کے لئے ہے ،پہلی منزل پے جیٹھ جیٹھانی ، دوسری منزل پر میں ہوں اور تیسری منزل پر دویر ہے ۔اب جنوری ۳۰۲۱میں میری جیٹھانی نے دوسری شادی کر لی ہے ۔شادی کے بعد اپنے پہلی منزل کے مکان میں کبھی کبھار آتی جاتی رہتی ہیں۔مگر اب تو وہ اپنے نئے شوہر کو بھی ساتھ لیکر آتی ہیں اور انکا کہنا ہے کہ گھر پر اب بھی انکا حق ہے ۔میری ساس مر حومہ کے نام کچھ جائیداد ہیں جن کے تمام کاغذات جیٹھ کے پاس رہتے تھے اور ظاہر ہے جیٹھ کے فوت ہونے کے بعد وہ تمام کاغذات جیٹھانی کے پاس ہی ہیں۔ بہر حال اس جائیداد میں پرانے کرائے دار ہیں ان مکانوں سے جو کرایہ آتا ہے وہ پیسہ دیور اپنے پاس رکھتا ہے ،ایک دو بار منگنے پر ضرور دئے ہیں ورنہ کبھی نہیں دئے ہیں ۔میرے سسر کی ایک دکان تھی جسکو تینوں بیٹوں کی آپسی رضامندی سے دو برار کے حصہ میں بانٹا گیا ایک حصہ مجھے ایک دیور کو ملا ،اور ان دونوں دکانوں کے اوپر کا حصہ جیٹھ اور جیٹھانی نے لے لیا یہ تینوں جائیداد کسی بھی بھائی کے نام پر نہیں ہیں صر ف ساس سسر کے نام پر ہے جیٹھانی کا کہنا ہے کی زیریں منزل اور تیسری منزل کی چھت یہ دونوں کی جگہ سے اپنا حق چھوڑ دیگی اور جن جائیداد سے کرایہ آتا ہے اسے بھی چھوڑ دی گی لیکن مکان اور دوکان کی اوپری جگہ سے دست بردار نہیں ہونگی ۔لہذا اب میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ شریعت کے حساب سے انکا کیا حق بنتا ہے ؟ اور کیا نکے نئے شوہر کا گھر میں آنا درست ہے ؟ برائے کرم میرا اور میرے دونوں بچوں کا جو بھی حق بنتا ہے ارشاد فر مائیں اور دیور ،جیٹھانی کا بھی جو حق بنتا ہے تفصیل سے بیان فر مائیں ۔

    جواب نمبر: 605992

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:35-22T/L=2/1443

     مرنے کے بعد وراثت جلد تقسیم ہونی چاہیئے تاکہ آگے چل کر اس میں پیچیدگیاں پیدا نہ ہو ں جب آپ کے سسر اور ساس کا انتقال ہوگیا تھا اور اگر ان دونوں مرحومین کی وفات کے وقت ان کے والدین ، دادا، دادی اور نانی میں سے کوئی حیات نہیں تھا اور صرف یہی تین لڑکے ان کے شرعی وارث تھے تو ان کے متروکہ تمام مال کو ان کے تینوں بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کرنا ضروری تھا، پس اولاً ان کا متروکہ تمام مال خواہ وہ کسی کے نام ہو تین حصوں میں منقسم ہوکر ہر بھائی ایک ایک حصے کا مالک ہوگا ، اور حصوں کی تقسیم میں بہتر صورت یہ ہے کہ مکان دکان وغیرہ کو قیمت کے اعتبار سے تین حصوں پر تقسیم کرلیں مثلا ً: تین منزلہ مکان ہے تو تینوں منزلوں کی قیمت لگائی جائے اگر کوئی زیادہ قیمت والا حصہ لینا چاہے تو وہ اپنے پاس سے دوسرے کم قیمت والوں کو کسی دوسری جائیداد میں کچھ حصہ دیدے یا نقد قیمت ادا کردے تاکہ قیمت کے اعتبار سے برابری ہوجائے اس تقسیم کے بعد آپ کے شوہر کے حصے میں آئے ہوئے حصہ کو چوبیس حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جس میں سے تین حصے آپ کو، سات حصے آپ کی لڑکی کو اور چودہ حصے آپ کے لڑکے کو ملیں گے ۔ پس آپ اس حساب سے پورے مال و جائیداد کو تقسیم کروالیں، جہاں تک آپ کی جیٹھانی کا اپنے شوہر کو گھر میں لانے کا مسئلہ ہے تو چونکہ وہ بھی اپنے شوہر کے واسطے سے گھر میں حصہ دار ہیں اور مذکورہ بالا صورت میں ان کے شوہر کو اپنے والد سے ملنے والا حصہ اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی انھوں نے مال وجائیداد کی شکل میں چھوڑا ہو اس کی تقسیم اس طور پر ہوگی کہ مرحوم کا تمام ترکہ /۴حصوں میں منقسم ہوکر ایک حصہ آپ کی جیٹھانی کو اور تین حصے آپ کے دیور کو ملیں گے ، مذکورہ بالا طریقہ پر تقسیم کے بعد آپ کی جیٹھانی کو جو حصہ ملے گا صرف اتنے کی وہ مالک ہوں گی ، وہ اپنے شوہر کے مکمل ترکہ کی مالک نہ ہوں گی اور نہ ہی ان کے لیے آپ کی ساس کے نام جائیداد کے کا غدات کو اپنے پاس رکھنے کا اختیار ہوگا ۔ واضح رہے کہ آپ کی جیٹھانی کو اپنے شوہر کے حصے میں سے جتنا حصہ ملے گا اس کی وہ مالک ہوں گی اور ان کو اپنے حصہ میں اپنے موجودہ شوہر کو بھی لانے کا حق ہوگا اسی طرح اگر وہ اپنے شوہر کے حصہ میں سے ملنے والے اپنے کسی خاص حصہ کو کسی دوسرے حصہ یا کسی دوسر ی چیز کو لے کر چھوڑنا چاہیں توا ن کو اس کا بھی انھیں حق ہوگا ۔

    نوٹ: آپ کے دیور کا مکانوں سے ملنے والی کرایہ کی رقم کو اکیلے اپنے استعمال میں لانا درست نہیں؛ بلکہ یاتو وہ وہ ان مکانوں کو بھی اپنے والد کے تمام ورثاء میں ان کے حصص شرعیہ کے اعتبار سے تقسیم کردیں یا کرایہ کی رقم کو تمام ورثاء کے درمیان ان کے حصص کے اعتبار سے تقسیم کریں۔

    دار بین جماعة أرادوا قسمتہا وفی أحد الجانبین فضل بناء فأراد أحد الشرکاء أن یکون عوض البناء الدراہم وأراد الآخر أن یکون عوضہ من الأرض فإنہ یجعل عوضہ من الأرض ولا یکلف الذی وقع البناء فی نصیبہ أن یرد بإزاء البناء من الدراہم إلا إذا تعذر فحینئذ للقاضی ذلک وإذا کان أرض أو بناء فعن أبی یوسف رحمہ اللہ تعالی أنہ یقسم کل ذلک باعتبار القیمة وعن أبی حنیفة رحمہ اللہ تعالی أنہ یقسم الأرض بالمساحة ثم یرد من وقع البناء فی نصیبہ أو من کان نصیبہ أجود دراہم علی الآخر حتی یساویہ فتدخل الدراہم فی القسمة ضرورة وعن محمد رحمہ اللہ تعالی أنہ یرد علی شریکہ بمقابلة البناء ما یساویہ من العرصة وإن بقی فضل ویتعذر تحقیق التسویة بأن لا تفی العرصة بقیمة البناء فحینئذ یرد الفضل دراہم کذا فی الکافی .(الہندیة 5/205) إذا کانت الترکة بین ورثة فأخرجوا أحدہما منہا بمال أعطوہ إیاہ والترکة عقار أو عروض صح قلیلا کان ما أعطوہ أو کثیرا.[الفتاوی الہندیة 4/ 268)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند