• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 605082

    عنوان:

    تقسیم کے وقت جو قیمت ہوگی اُس قیمت کا اعتبار اعتبار ہوگا

    سوال:

    قابلِ صد احترام مکرمی جناب حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بعد سلام مسنون غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کا انتقال جنوری ۲۰۱۰ءء کو ہوا اور اس آدمی نے پیچھے زوجہ، ۲بیٹے اور ۳بیٹیاں کو چھوڈاتھا، کچھ ماہ کے بعد میت کے بھائی اور قریبی رشتہ داروں نے متروکہ مال کو ۸حصوں میں تقسیم کرکے بیٹوں کو دو اور باقی کو ایک ایک حصہ کر کے صرف ایک پرچے پر جس کے حصہ میں جتنی رقم آتی تھی لکھ کر چھوڈ دیا اور اس کے بعد اسکی ادائیگی کی کوئی بات نہیں کی کے مال کو بیچ کر مستحق میراث کو انکا حق کب دیا جائے ، اور میت کی زوجہ کے پاس میراث کچھ رقم موجود تھی جس میں سے کچھ رقم بیٹیوں نے ضرورت کے وقت قرض کے طور پر لے رکھی تھی (حق میراث میں سے نہیں)، اب مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ۲۰۱۹ءء میں میت کے بھائی نے میت کے بیٹے کو کہاں کے بہنوں کو حصہ دیا کے نہیں؟ اس بات کو لیکر بیٹا یہ کہتا ہے کہ باقی وارث داروں کو یعنی موٴنث (زوجہ، ۳بیٹیوں) کو پرانہ حصہ دینگے ، اور ہم باقی ماندہ پر قابض ہونگے ، کیا اس طرح کی تقسیم کی کوئی حیثیت ہے شریعت میں، جب کہ متروکہ مال میں ۲۰۱۰ءء سے لیکر ۲۰۱۹ءء تک حق دینے کی کوئی بات کیسی نے نہیں کی، اب مال کی قیمت گزشتہ کے مقابلہ میں اس وقت دوگنی چگنی ہو گئی ہے ، تو کیا تمام مستحق میراث میں مال کو اس وقت کی رقم کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے یا جو پہلے پرچے پر لکھا پرانہ حساب دیا جائے ، اگر پرانہ حساب دیا جائے تو تمام کو پرانہ دینا ہوگا یا صرف موٴنث کو؟ اس مسئلہ کی وضاحت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔ نوٹ : میت کے متروکہ مال میں ایک گھر ہے جس کی قیمت اُس وقت یعنی ۲۰۱۰ءء میں پانچ لاکھ طے پائی تھی اب اس کی قیمت دس لاکھ پچاس ہزار طے پائی ہے یہی حال تمام مال کا ہے ۔

    جواب نمبر: 605082

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 1241-878/H=11/1442

     مرحوم شخص کے مالِ متروکہ کی آٹھ حصوں میں تقسیم درست ہے، اور مرحوم شخص کے بیٹے کا قول غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ شخص مرحوم کی جائیداد وغیرہ کی تقسیم کے وقت جو قیمت ہوگی اُس قیمت کا اعتبار کرکے ورثہٴ شرعی کے حصے لگائے جائیں گے، 2010 والی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔ اگر تقسیم کے وقت دس لاکھ پچاس ہزار سے قیمت زیادہ ہوجائے تو اسی قیمت کو ملحوظ رکھ کر تقسیم کی جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند