• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 604257

    عنوان:

    ماں باپ‏، ایك بیوی اور دو بیٹوں میں وراثت كی تقسیم

    سوال:

    سوال : ایک شخص کا انتقال ہوا اور اس نے اپنے پیچھے چودہ لاکھ روپے چھوڑے تھے۔ اس کے ماں باپ دونوں ں موجود ہیں ۔ ایک بیوی اور تین بیٹوں میں سے دو موجود ہیں ایک کا انتقال ہو گیا ۔ ورثہ میں وراثت کیسے تقسیم ہوگی ؟

    جواب نمبر: 604257

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:716-545/N=8/1442

     صورت مسئولہ میں اگر مرحوم کے ایک بیٹے کا انتقال مرحوم کی حیات ہی میں ہوگیا تھا اور مرحوم نے اپنی وفات پر اولاد میں صرف۲/ بیٹے چھوڑے تھے تو مرحوم کا سارا ترکہ (بہ شمول: ۱۴/ لاکھ روپے) بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث ۴۸/ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے بیوہ کو ۶/ حصے، ۲/ بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو ۱۳، ۱۳/ حصے اور ماں باپ میں سے ہر ایک کو ۸، ۸/ حصے ملیں گے۔

    تخریج کا نقشہ حسب ذیل ہے:

    مسئلہ۲۴، تص ۴۸

    --------------------------

    زوجة=6

    ابن=13

    ابن=13

    أب=8

    أم=8

    قال اللّٰہ تعالی: ﴿فإن کان لکم ولد فلھن الثمن مما ترکتم﴾ الآیة (سورة النساء، رقم الآیة: ۱۲)۔

    وقال تعالی أیضاً:﴿یوصیکم اللّٰہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین﴾(المصدر السابق، رقم الآیة: ۱۱)۔

    وقال تعالی أیضاً: ﴿ولأبویہ لکل واحد منھما السدس إن کان لہ ولد﴾ (المصدر السابق)۔

    وعن ابن عباس قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”ألحقوا الفرائض بأھلھا، فما بقي فھو لأولی رجل ذکر“، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، باب الفرائض، الفصل الأول، ص: ۲۶۳، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔

    فیفرض للزوجة فصاعداً الثمن مع ولد إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۱، ۵۱۲)۔

    وللأم السدس مع أحدھما أو مع الإخوة إلخ (تنویر الأبصار مع الدر المختار و رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰:۵۱۴)۔

    ثم العصبات بأنفسھم أربعة أصناف: جزء المیت ثم أصلہ ثم جزء أبیہ ثم جزء جدہ ویقدم الأقرب فالأقرب منھم بھذا الترتیب، فیقدم جزء المیت کالابن ثم ابنہ وإن سفل إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، ۱۰: ۵۱۸)۔

    ویصیر عصبة بغیرہ البنات بالابن إلخ (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، ۱۰: ۵۲۲)۔

    (وللأب والجد) ثلاث أحوال: الفرض المطلق، وھو (السدس) وذلک (مع ولد أو ولد ابن) إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الفرائض، ۱۰: ۵۱۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند