• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 603702

    عنوان:

    میراث کی فوری تقسیم نہ كرنا؟

    سوال:

    میرے بہنوئی کی وفات 18 جنوری 2021 کو ہوئی ہے . ان کے وارثین میں ایک بیوہ (میری بہن)، دو بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں. تمام بچے عاقل بالغ ہیں لیکن ابھی غیر شادی شدہ ہیں. وراثت میں ایک گھر جس میں بیوہ اور بچے رہائش پذیر ہیں. کچھ پراپرٹی اور بینک بیلنس چھوڑا ہے . کیا میراث کی فوری تقسیم ضروری ہے جبکہ بچے ماں کے زیرِ نگرانی رہنا چاہتے ہیں اور میراث کی فوری تقسیم نہیں چاہتے . بہن بھی یہی چاہتی ہیں کہ سب کی شادی کے بعد وراثت تقسیم ہو. نیز یہ بھی رہنمائی فرمائیں کہ میراث کی فوری تقسیم فرض ہے یا واجب یا پھر مستحب؟

    جواب نمبر: 603702

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:327-508/N=8/1442

     (۱، ۲): ماں باپ یا کسی بھی مُورِث کی وفات پر اُس کی ملکیت کی ساری چیزیں ترکہ ہوجاتی ہیں اور وراثت پر مقدم حقوق کی ادائیگی کے بعد جو کچھ بچتا ہے، وہ وارثین کا ہوتا ہے اور ترکہ میں ہر وارث کی ملکیت اُس کے حصہ شرعی کے بہ قدرغیر اختیاری طور پر ثابت ہوتی ہے، یعنی:مورث کا ترکہ وراثت پر مقدم حقوق کی ادائیگی کے بعد بچنے والا سارا ترکہ از خود تمام وارثین کے درمیان اُن کے شرعی حصص کے تناسب سے مشترک ہوجاتا ہے، جس طرح دیگر مشترک املاک ہوتی ہیں۔

    پس اگر سب وارث عاقل وبالغ ہوں اوروہ سب کسی دباوٴ وغیرہ کے بغیر محض اپنی مرضی وخوشی سے کسی جائز مصلحت کی بنا پر فی الحال وراثت کی تقسیم کرنا نہ چاہیں تواس میں شرعاً کچھ مضائقہ نہیں،اورعام حالات میں تقسیم وراثت میں تاخیر سے اس لیے منع کیا جاتا ہے کہ عام طور پر سب وارثین کی دلی رضامندی نہیں ہوتی یا بعض نابالغ ہوتے ہیں یا بعض وارثین دوسروں کی کم زوری کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کی دلی رضامندی کے بغیر مشترکہ ترکہ سے اپنے حق سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں وغیرہ وغیرہ اور صورت مسئولہ میں بہ ظاہر اس طرح کی کوئی وجہ نہیں ہے؛ لہٰذا آپ کی بہن اور بھانجے بھانجیوں کے لیے باہمی دلی رضامندی سے مرحوم شوہر یا باپ کی وراثت کی تقسیم موٴخر کرنے میں شرعاً کچھ حرج نہیں ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند