• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 603635

    عنوان:

    كیا زید كو اپنی زندگی میں سب كا حصہ دینا درست ہے؟

    سوال: مکرّمی،بعد سلام مسنون کے میرا سوال یہ ہے کہ ۱.زید کے فیملی میں اسکی اھلیہ ۔چار بیٹے تین بیٹیاں ہیں۔ سب بالغ وہ شادی شدہ ہیں۔ زید کی کل پراپرٹی میں اھلیہ اور ساتوں اولادوں کا حنفی مسلک کے مطابق کتنا حصہ بنتا ہے ۔ ۲. زید کو اپنی زندگی میں سب کا حصہ دے دینا درست یا ضروری ہے۔ ۳. یا زید کے وفات کے بعد شرعی طور پر جو حصہ بنتا ہے حصے دار خود اپنا حصہ لے لیں۔ فقط ۔والسلام

    جواب نمبر: 603635

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:603-468/N=8/1442

     (۱ - ۳): آدمی زندگی میں اپنی تمام املاک: مکان، پلاٹ، کاروبار وغیرہ کا تن تنہا مالک ہوتا ہے، اس کی زندگی میں اُس کی کسی چیز میں کسی اولاد یا بیوی کا مالکانہ کوئی حق وحصہ نہیں ہوتا؛ اسی لیے وراثت کا حکم وفات پر ہوتا ہے، زندگی میں نہیں؛ لہٰذا ابھی جب زید باحیات ہے تواُس کی زمین وجائداد وغیرہ کی تقسیم اولاد اور بیوی کے درمیان ضروری نہیں؛ بلکہ جب زید کی بہ قضائے الٰہی وفات ہوجائے گی تو اُس وقت زید کے جو شرعی وارثین ہوں گے ، وہ حسب شرع اپنا اپنا متعینہ حصہ لے لیں گے۔

    قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”کل واحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین“۔ (السنن الکبری للبیہقي، ۷: ۷۹۰)۔

    اعلم أن أسباب الملک ثلاثة:ناقل کبیع وہبة وخلافة کإرث وأصالة الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصید، ۱۰:۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند