• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 603363

    عنوان:

    مرنے كے بعد مكان جامع مسجد كے نام وقف

    سوال:

    ہمارے یہاں ایک صاحب کی اوالد نہیں ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں یہ کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد ہمارا گھر جامع مسجد پر وقف کرتے ہیں ، اب ان کے مرنے کے بعد ان کی بہن کے داماد کہہ رہے ہیں کہ اس گھر کو بنانے میں میں نے پیسہ دیا تھا ، میرا پیسہ پہلے دیدو، اس کے بعد گھر ملے گا جب کہ ان کے کچھ اور کھیت کی زمین بچی ہے جو ان کی بہن کے داماد وغیرہ ہی کے ذمے ہیں ، مگر اس زمین کو دینے سے منع کررہے ہیں، اس بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا ان کو پیسہ دینا ہوگا یا نہیں؟

    جواب نمبر: 603363

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:637-498/L=7/1442

     مذکورہ بالا صورت میں اگر وہ مکان میت کے جمیع ترکہ کے ایک تہائی سے کم ہے تو اس مکان کو جامع مسجد کے حوالہ کرنا ضروری ہوگا ،اور اگر وہ مکان ترکہ کے ایک تہائی سے زائد ہے تو صرف ایک تہائی میں وصیت کا نفاذ ہوگا الا یہ کہ تمام ورثاء اس کی اجازت دیدیں بشرطیکہ وہ بالغ بھی ہوں تو تمام مکان وقف ہوجائے گا ،جہاں تک قرض کا مسئلہ ہے تو اگر واقعی بہن کے داماد نے قرض کے طور پر رقم دی تھی تو اس کی ادائیگی مرحوم کے ترکہ سے کی جائے گی پھر وصیت کا ایک ثلث میں نفاذ ہوگا اور اس کے بعد ترکہ کی تقسیم ورثاء کے درمیان ان کے حصص کے اعتبار سے ہوگی ۔

    قال: جعلت أرضی ہذہ صدقة موقوفة مؤبدة أو أوصیت بہا بعد موتی فإنہ یصح حتی لا یملک بیعہ ولا یورث عنہ لکن ینظر إن خرج من الثلث والوقف فیہ بقدر الثلث کذا فی محیط السرخسی. (الفتاوی الہندیة 2/ 352)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند