معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 602576
كیا بیرون ملك كمائی كرنے والے لڑكے كی كمائی میں والدین یا بھائی بہنوں كا بھی ہے؟
اگر کوئی شخص والد سے پیسے لے کر ان پیسوں پے کاروبار کرتا ہے یا ان پیسوں سے کسی اور ملک جا کر نوکری کرتا ہے ۔تو کیا اس کی کمائی میں والدین یا بھائی کا حصہ ہے ، یا وہ حصہ فرض؟واجب یا مستحب ہو گا؟
جواب نمبر: 60257615-Feb-2021 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 469-375/D=06/1442
والد نے اگر رقم بیٹے کو مالک بناکر دیا ہے تو اس سے حاصل ہونے والے نفع کا حق دار بیٹا ہوگا اسی طرح باہر جاکر نوکری کرنے کی صورت میں کمائی کا مالک بیٹا ہی ہوگا۔
ہاں اگر باپ نے بطور قرض دیا ہو، تو اس کی واپسی والد کی طرف کرنا ہوگا۔ اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور صورت ہو تو اسے واضح کرکے سوال کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرے
ماموں کا چنئی میں انتقال ہوا انھوں نے ایک بیوہ، چار لڑکے (الف، ب، ج اور د) ،
چار لڑکیاں اور تقریباً بارہ پراپرٹی چھوڑی، جس میں سے صرف تین ہی پراپرٹی ان کے
چاروں لڑکیوں کے نام پر ہے (ایک پراپرٹی دو لڑکیوں کے نام پر اورایک پراپرٹی
مشترکہ طور پر دوسری دو لڑکیوں کے نام پر)۔لڑکیوں کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے
نیز ان کے اوپر اپنی لڑکیوں کی شادی کی ذمہ داری بھی ہے۔ بقیہ نو پراپرٹی یہ سب
مشترکہ ہیں یہ سب ان کی بیوہ اور چار لڑکوں (الف، ب، ج اور د) کے نام پر ہیں
(لڑکیاں اس میں شامل نہیں ہیں)۔ مثلاً ایک پراپرٹی ان کی بیوہ اور لڑکے الف کے نام
پر، ایک دوسری پراپرٹی ب کے نام پر، ایک دوسری پراپرٹی لڑکے ج کے نام پر، ایک لڑکے
د کے نام پرایک دوسری پراپرٹی بیوہ کے نام پر، ایک دوسری پراپرٹی بیوہ اور لڑکوں
الف اور ب کے نام پر اس طرح کااشتراک تمام نو یا اس طرح کی پراپرٹیوں پر ہے لیکن
کوئی پراپرٹی (نو پراپرٹیوں میں سے) چاروں لڑکیوں کے نام پر نہیں ہے ...
كیا سوتیلے بھائی بہن وارث ہوں گے؟
3887 مناظرلے پالک کو ہبہ کرنا
3020 مناظرتوفی
أبي منذ عامین وترک لنا بیتا وقطعة أرض مناصفة بینہ وبین والدتي فکان المیراث نصف
البیت ونصف الأرض والبیت نعیش فیہ أما قطعة الأرض فھي أرض زراعیة ونحن ثلاث بنات
وأمي علی قید الحیاة ولوالدي رحمہ اللہ أخ وأخت فعند الوفاة طبعا قسم المیراث
تقسیما شرعیا ولکن لمنعطیہم نقدا والآن عمي یریدی حقہ مالا ونحن لا نملک إعطائہ
ھذا المال لأننا کما ذکرت نعیش في البیت ولا یمکننا بیعہ وعرضنا علیہ مبلغ 15 ألف
جنیہ لإرضائہ وہذا ما في مقدورنا ولکنہ یري أن حقہ 200 ألف جنیہ من أین لا أعلم
فھل نحن بذلک منعناہ من حقہ الشرعی ونحن بذلک في وزر کبیر أم ہو قد أخذ حقہ
بالقسمة الشرعیة منذ وفاة أبي ولا حاجة علینا أفتوني فأنا في حیرة من أمري یاریت
تکون الإجابة باللغة العربیة ․
وصیت اور وراثت سے متعلق سوال
2193 مناظرزید کی وفات ہوئی، جس کی جائیداد اور تجارت ہے، متعدد ورثاء ہیں، چند ورثاء بیرون ملک ہیں وہ اپنا حصہ جائیداد و تجارت دوسرے بعض ورثاء کو ہبہ کرنا چاہتے ہیں، تو تقسیم سے قبل ہبہ کرسکتے ہیں یا نہیں۔ (۲) ایک ایسا مکان ہے جس کی تقسیم جملہ ورثاء پر نہیں ہوسکتی، تو بعض ورثاء اپنا حصہ دوسرے ورثاء کو ہبہ کردیں یا غیر وارث کو ہبہ کردیں تو یہ ہبہ جائز ہے یا نہیں؟ (۳) اگر ہبہ کرسکتے ہیں تو ہبہ مشاع جائز ہے یا نہیں؟(۴) ہبہ مشاع اگر احناف کے یہاں جائز نہیں تو دیگر ائمہ کے مسلک میں گنجائش ہو تو اس مسلک پر عمل کرسکتے ہیں یا نہیں؟
4285 مناظرجس مكان كی مرحومہ نے كوئی وصیت نہیں كی تھی اس كا كیا حكم ہے؟
2310 مناظر