معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 602365
ایك بیوی چار لڑكے اور تین لڑكیوں كے درمیان تقسیم وراثت
ہم تین بہنیں اور چار بھائی ہیں ، والد صاحب کاانتقال ۱۴سال پہلے ہوچکاہے، والدہ حیات ہیں۔ سال 2000ء میں میری سرکاری نوکری کی تنخواہ سے ایک پروپرٹی خریدی گئی ، کیا میں اس کو لے سکتاہوں؟ دو پلاٹ والد صاحب کے خریدے ہوئے ہیں، ایک کی قیمت قریب 3500000 روپئے ہے اور ہماری والدہ زبردستی ہم تین بڑے بھائیوں میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں ، دوسرا پلاٹ قریب ساٹھ لاکھ روپئے کے قریب کا ہے جس کو ہماری والدہ چھوٹے بھائی اور خود رکھنا چاہتی ہیں، کیا ہم اپنی ماں کے فیصلہ کا انکار کرسکتے ہیں اگر وہ فیصلہ غلط ہے تو صحیح بٹوارہ کیا ہونا چاہئے اس پر؟
براہ کرم، جواب دیں۔
جواب نمبر: 602365
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 449-368/SN=06/1442
(الف) جو پروپرٹی خالص آپ کی تنخواہ سے خریدی گئی ہے، وہ آپ کی ہے، اسے آپ لے سکتے ہیں، اس میں وراثت جاری نہ ہوگی۔
(ب) آپ کے والد مرحوم نے جو کچھ ترکہ (پلاٹ، مکان، روپیہ پیسہ اور دیگر اثاثہ) چھوڑا ہے، سب میں مرحوم کے تمام ورثاء یعنی بیوی، بیٹیاں اور بیٹوں کا حق ہے، اگر مرحوم کی وفات کے وقت ان کے والدین اور دادا دادی میں سے کوئی حیات نہ تھا تو صورت مسئولہ میں مرحومہ کا کل ترکہ، بعد ادائے حقوقِ متقدمہ علی الارث، 88 حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے 11 حصے آپ کی والدہ کو، 7-7 حصے آپ کی ہر بہن کو اور 14-14 حصے آپ چاروں بھائیوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے، آپ کی والدہ جس طرح تقسیم کرنا چاہتی ہیں وہ شریعت کے مطابق نہیں ہے، اس پر عمل درست نہیں ہے۔ اس لئے بہ جائے مذکورہ بالا طریقے پر ترکہٴ والد آپ حضرات تقسیم کرلیں۔
کل حصے = 88
-------------------------
زوجہ = 11
ابن = 14
ابن = 14
ابن = 14
ابن = 14
بنت = 7
بنت = 7
بنت = 7
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند