• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 602158

    عنوان:

    جو پروپرٹی بیٹی كو دے كر مالك وقابض بنادیا‏، والد كے انتقال كے بعد وہ تركے میں شامل ہوگی یا نہیں؟

    سوال:

    کیافرماتے ہیں علمائکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی جوحکومت پنجاب کی طرف سے الاٹمنٹ آرڈرکے تحت12ایکڑاراضی کامالک وقابض تھا۔وہ اپنی اس زمین کواپنی بیٹی کے نام منتقل کرواناچاہتاتھالیکن کچھ قانونی عوارض(عدم پٹہ ملکیت/سٹے )کی وجہ سے انتقال کرواناممکن نہیں تھا۔جس کی بنائپراس نے قانونی کاروائی کرتے ہوئیاسٹامپ پیپرپراپنی بیٹی کے نام اقرارنامہ بیع لکھ دیا۔اور قبضہ بھی سپردکردیا۔جس کے بعداس کی بیٹی اورداماداس زمین کے حکومت پنجاب کی طرف سے حقوق ملکیت حاصل کرنے کے لئے اوراس زمین کوقابل کاشت بنانے کے لئے دیگراخراجات بھی کرچکے ہیں۔اب آیاکہ ان کی وفات کے بعدشرعی تقسیم ہوگی یااقرارنامہ بیع پر عمل کیاجائیگاجبکہ ورثائمیں ایک بیٹی اورچاربھائی ہیں۔

    جواب نمبر: 602158

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 389-303/D=06/1442

     اقرار نامہ بیع خواہ عوض کے بدلے ہبہ کرنا ہو یا بلاعوض کے ابتداءً وہ ہبہ ہوتا ہے جس میں ہبہ خالص کی طرح شیء موہوبہ کا محوز و مفرغ غیر مشغول ہوتا اور موہوب لہ کے قبضہ میں دیا جانا ضروری ہے۔

    پس صورت مسئولہ میں مذکورہ زمین کا شخص مذکور فی السوال اگر مالک تھا اور منجانب حکومت اسے ملکیت منتقل کرنے کا اختیار حاصل تھا پھر اس نے بیٹی کو دے کر مالک و قابض بھی بنادیا تو بیٹی اس کی مالک ہوگئی۔ شخص مذکور کے انتقال کے بعد وہ زمین مرحوم کا ترکہ نہیں بنے گی اور دیگر ورثاء اس میں حصہ دار نہ ہوں گے اگرچہ مرحوم کا دیگر ورثاء کو نظر انداز کرکے صرف ایک بیٹی کو ہبہ کرنا بغیر کسی وجہ شرعی کے برا ہے۔ قال فی العالمگیری: فان کانت الہبة بشرط العوض شرط لہا شرائط الہبة فی الابتداء حتی لا یصح فی المشاع الذي یحتمل القسمة ولا یثبت الملک قبل القبض، ولکل واحد منہما أن یمنع من التسلیم وبعد التقابض یثبت لہا حکم البیع ․․․․․ وہذا استحسان والقیاس أن تکون الہبة بشرط العوض بیعاً ابتداءً وانتہاءً ۔ (عالمگیری: 4/420)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند