• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 602115

    عنوان:

    مورث کے انتقال کے بعد“وکیل” کون بنتا ہے ؟ وغیرہ

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں... کہ والد کے انتقال کے بعد گھر میں وکالت کے حقوق کس کے زمہ از روے شرع آتے ہیں یعنی وکیل کون بن جائے گا بھائیوں اور بہنوں کے درمیان.... دوسرا سوال یہ کہہ وراثت کس رو سے تقسیم ہوگی... زمین سے بھائیوں کو ہر کسی کے حق میں ۱۱مرلہ اور بہنوں کو 5.5 مرلہ حصہ میں آتا ہے اور بڑے بھائی جو والد کے بعد وکیل ہوا نے اپنا ۱۱مرکہ حصہ اپنے دوسرے بھائی کو بعوضِ 15 لاکھ میں دیا اور اِسی قیمت کے حساب سے بہنوں کو بھی دیا.. اب دوسرا بھائی اس قیمت پر راضی نہیں اور نہ ہی اپنے حصے پر مکان بنانا چاہتا ہے کہ وہ تیس سال سے باہر رہ رہا ہے اور اس وقت بنک کا مقروض ہے اور اب 80 لاکھ کا تقاضا کر رہا ہے اور دلالوں سے تنگ کرا رہا ہے .. البتہ اَسے 40 لاکھ کی بھایی نے آفر دی تھی مگر لڑنے پر مضر ہے ... جبکہ ایک سال پہلے تک خود اپنا مکان بنانے کا وعدہ بند تھا... اب اِس صورت میں کیا کِیا جاے اور کون سی قیمت مقرر کی جائے ... تیسرا یہ کہ ہم سید خاندان سے ہیں اور میں نے آج تک 5 اسلامی تصنیفات شایع کی ہیں.. اپنے زمین کے حسے میں کسی بدکردار کو آنے سے خوش نہیں کہ جس خریدار کو وہ لالچ میں بیچنا چاہتا ہے اَن کا کردار اچھا نہیں... اِس صورت میں شرعی کیا فیصلہ ہے .. اور یہ کہ والدہ کا کیا حصہ بنتا ہے اور والدہ تیسرے بھائی کے پاس ہے جو اسکی خدمت کر رہا ہے اور والدہ اس حصے کو کسی غیر کو بیچنے سے سخت ناراض ہے .. کل زمین ساڑھے تین کنال ہے اور جو تقریباً 70 مرلہ بنتا ہے ... والد کے انتقال کے وقت ایک کنال کی قیمت تقریباً 30 لاکھ تھی.. اور بڑے بھائی نے اسی کے حساب سے حصہ بیج دیا... برائے مہربانی از روئے شرع شریف ان سوالات کے جوابات مرحمت فرما کر مشکور فرماویں بہت مہربانی ہو گی..... اللہ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔

    جواب نمبر: 602115

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:406-128T/sn=6/1442

     مورث کے انتقال کے بعد ”ترکہ“ میں تمام ورثہ کی ملکیت از خود ثابت ہوجاتی ہے ، ہر ایک کی ذمے داری ہے کہ ترکہ کو شریعت کے مطابق تقسیم کرلیں ، اگر ورثا بہ خوشی کسی کو وکیل بنادیں تو وہ سب کا وکیل بنتا ہے ورنہ یعنی وکیل نہ بنانے کی صورت میں کوئی وارث از خود دوسروں کا وکیل نہیں بنتا۔

    والثالث إما اختیاری وہو الوصیة أو اضطراری وہو المیراث(الدر المختار مع رد المحتار: 10/ 492، کتاب الفرائض، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)

    (2) اگر مرحوم کے انتقال کے وقت ان کے والدین میں سے کوئی حیات نہ تھا تو صورت مسئولہ میں مرحوم کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائداد میں سے، بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث، بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا اور مابقیہ جائداد تمام بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان للذکر مثل حظ الانثیین(بیٹے کو دوہرا اور بیٹی ایکہرا)کے وصول کے مطابق تقسیم ہوگی ۔

    (یُوصِیکُمُ اللَّہُ فِی أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ) (النساء:11)

    (3) وارث کا حق عین ترکہ میں ہوتا ہے ، اگر کوئی وارث اپنا حصہ فروخت نہ کرنا چاہے تو اس پر بیچنے کے لئے جبر کرنا جائز نہیں ہے ، واضح رہے کہ تقسیم ترکہ میں اس قیمت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو بہ وقت تقسیم جائداد کی ہو ، مورث کے انتقال کے وقت کیا قیمت تھی اس کا اعتبار نہ ہوگا ۔

    نوٹ: بہتر ہے کہ تمام ورثا کسی اچھے عالم کی موجودگی میں اوپر ذکر کردہ اصول کے مطابق جائداد کی تقسیم کرلیں، نیز بہ شمول اس بھائی کے دیگر تمام بھائیوں بہنوں کوچاہئے کہ والدہ کے مفید اور مباح مشوروں پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند