• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 601960

    عنوان:

    نانا نے جو ہم تین بھائیوں كو دکان دے كر باقاعدہ شرعی طریقے پر مالکانہ قبضہ دخل بھی دیدیا تھا والد كی وراثت كے وقت اسے كیسے تقسیم كریں گے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: آج سے قریب چالیس سال قبل کولکاتہ میں ہمارے نانا نے ہم تین بھائیوں: انیس الرحمان،رئیس احمد،اور بندہ محب الرحمان کو اپنی ایک دکان بطور ہبہ مالک کاروبار کے لیے دیا، جس میں ہم تینوں بھائیوں نے "انیس اینڈ کمپنی" کے نام سے اپنا کاروبار شروع کیا، اس درمیان بھائی انیس الرحمان اور رئیس احمد کا انتقال ہو گیا، اس کاروبار میں اور دکان میں ہمارے والدین کی نہ کبھی کوئی حصہ داری رہی، نہ انہوں نے کوئی پیسہ لگایا، یہ ہم تینوں بھائیوں کا ذاتی کاروبار ہے ، بندہ اپنے مرحوم بھائیوں کے ورثاء کے تقاضے پر اس دکان کا بٹوارہ کرنا چاہتا ہے ، تو اب ہمارا چھوٹا بھائی بشیر احمد "ساکن گھوگھا ضلع بھاگلپور بہار" یہ کہتا ہے کہ:نانا کی دی ہوئی دکان ہے ، اس لئے اس میں میرا بھی حصہ ہوگا، جبکہ نانا نے ہم تینوں بھائیوں کو مالک بنا کر دیا تھا، اور اس میں ہم تینوں بھائیوں نے والدین سے الگ اپنا ذاتی کاروبار کیا تھا، ہمارے والدین کا اس میں کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔تو سوال یہ ہے کہ: کیا از روئے شرع اس دکان میں میرے بھائی بشیر کا کوئی حصہ ہوگا؟

    تشفی بخش جواب مطلوب ہے ۔

    جواب نمبر: 601960

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:420-307/N=6/1442

     صورت مسئولہ میں اگر آپ کے نانا مرحوم نے آپ تینوں بھائیوں (: انیس الرحمن، رئیس احمد اور محب الرحمن)کو اپنی کوئی دکان بہ طور ہبہ مالک بناکر مشترکہ طور پر دیدی تھی اور آپ تینوں کو اس دکان پر باقاعدہ شرعی طریقے پر مالکانہ قبضہ دخل بھی دیدیا تھا اور وہ دکان کاروبار کے لیے ایسی تھی کہ اگر تینوں کے درمیان تقسیم کی جاتی تو کسی کے لیے بھی اپنے حصے میں کاروبار کرنا ممکن نہ ہوتا تو ایسی صورت میں وہ دکان اُسی وقت آپ تینوں بھائیوں کی ملکیت ہوگئی تھی، اور اب جب آپ، دو نوں مرحوم بھائیوں کے وارثین کے تقاضے پر اس کا بٹوارہ کرنا چاہتے ہیں تو اس میں بہ راہ راست آپ کے کسی اور بھائی یا بہن کا حصہ نہیں لگے گا، یہ صرف آپ اور آپ کے دونوں مرحوم بھائیوں کے شرعی وارثین کے درمیان حسب شرع تقسیم ہوگی۔

    (و) شرائط صحتھا (في الموھوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع إلخ)(االدر المختار مع رد المحتار، کتاب الھبة، ۸: ۴۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    قولہ: ”مشاع“: أي: في ما یقسم (رد المحتار)۔

    (وتتم) الھبة (بالقبض) الکامل…… (في) متعلق ب ”تتم“ (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) یبقی منتفعاً بہ بعد أن (یقسم) کبیت وحمام صغیرین؛ لأنھا (لا) تتم بالقبض (فیما یقسم ) (المصدر السابق،ص: ۴۹۳- ۴۹۵)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند