• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 601773

    عنوان: لڑكے كا حصہ لڑكی سے ڈبل كیوں ركھا گیا ہے؟

    سوال:

    حضرات مفتیان کرام سے صد بخلوص گزارش ہے کہ ذیل کے مسائل?کا حل شرعی نقطہٴ نظر سے فرمادیں! 1- بیٹوں کو ڈبل حصہ کیوں ہے؟ اور بیٹی کا آدھا کیوں؟ علت مطلوب ہے؟ قرآن کریم کی آیت معلوم ہے۔ 2- والد صاحب مرحوم ہوچکے ہیں تو ماں کے سارے اخراجات علاج ومعالجہ وغیرہ کے ذمہ دار کون ہوں گے بیٹوں کا کہنا ہے کہ جب بیٹی حصّہ لے رہی ہے تو بیٹی بھی ذمہ دار ہوں گی نیز دوسری بات یہ ہے کہ بیٹوں کا کہنا یہ ہے کہ ماں کے نام پر جو زمین حصہ میں ملی ہے اس میں سے علاج ومعالجہ وغیرہ کے اخراجات ہوں گے۔

    جواب نمبر: 601773

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:338-250/N=5/1442

     (۱): میراث میں عام طور پر مردوں کا حصہ جو عورتوں سے ڈبل رکھا گیا ہے، اس کی وجہ جاننے کے لیے رحمة اللہ الواسعہ (۴: ۶۳۸ - ۶۴۰) کا مطالعہ فرمائیں۔

    (۲، ۳): شوہر کی وفات پر بیوی کو وراثت کا جو حصہ ملا ہے اور اس کے علاوہ اُس کی ملکیت میں جو کچھ مال ودولت ہے، وہ اُس سے اپنے سارے اخراجات پورے کرے۔ اور جب اُس کے پاس کچھ نہ رہے تو اُس کے کھانے پینے وغیرہ کا خرچہ بیٹا، بیٹی دونوں پر ہوگا بہ شرطیکہ وہ غریب وتنگدست نہ ہوں اور دونوں ماں کا خرچہ برابر برابر برداشت کریں گے، بیٹے پر بیٹی سے ڈبل خرچہ واجب نہ ہوگا۔

    قولہ: ”بالسویة بین الابن والبنت“: ھو ظاھر الروایة وھو الصحیح، ھدایة۔ وبہ یفتی، خلاصة۔ وھو الحق، فتح (رد المحتا، کتاب الطلاق، باب النفقة، ۵: ۳۵۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۰: ۶۳۴، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند