• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 601756

    عنوان:

    كیا انشورنس سے ملی رقم میں وراثت كا مسئلہ؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں ، علماے دین مفتیان شرع متین .مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص عبد السلام نام ہے، ان کے والدین شادی کے دو سال بعد ایک لاکھ روپیہ خرچ کرکے سعودی بھیجا، جس کا پورا پیسہ ماں نے دیاتھا دوسال بعد عبد السلام سعودی سے واپس آکے دوبارہ کویت گئے، چھ ماہ بعد کویت سے واپس ہوئے، پھر بحرین گئے، بحرین کی جس کمپنی میں عبد السلام کام کرتے تھے وہاں ان کا کام کے درمیان کچھ حادثے سے انتقال ہوا تو ان کے ماں باپ نے قانونی کاروائی کراکر ان کی میت کو وطن منگالیا اور کمپنی کی طرف سے انشورنس کی کاروائی کرائی اور تجہیز وتکفین وتدفین کی اس کے چند ماہ بعد کمپنی نے اٹھارہ لاکھ، ساٹھ ہزار روپئے کمپنی نے دیئے ہیں، بیوی کا دعوی ہے کہ یہ پیسے پورے میرے شوہر کے ہیں، میں ا س کی مالک ہوں، کسی کونہیں دیتی ، جبکہ مرحوم نے ایک بیٹا دو سال کا بوڑھے ماں اور باپ ایک بھائی ایک بہن چھوڑا ہے، بیوی کاکہنا ہے کہ بچے کو بھی پیسہ نہیں دیتی ، اور ناہی بچے کو دیتی، عبدالسلام کے ماں باپ اور خاندان کے کسی فردکو ایک پیسہ نہیں دیتی، تو اس معاملے میں شریعت کیاکہتی ہے؟ قران وحدیث کی روشنی بتائیں۔ عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 601756

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 336-252/D=05/1442

     مذکورہ رقم (۱) اگر انشورنس کروانے کی وجہ سے ملی ہے تو صرف اتنی رقم آپ لوگوں کے لیے جائز ہے جتنی جمع کروائی گئی تھی، اس سے زیادہ رقم کا صدقہ کرنا واجب ہے۔ (۲) اور اگر وہ حادثے کے معاوضے کے طور پر ملی ہے تو وہ رقم دیت کے درجے میں ہوکر ترکہ ہو جائے گی، جو (دونوں صورتوں میں) ان کے شرعی وارثوں میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔ جہاں تک والدہ کے مطالبے کا تعلق ہے تو اگر انھوں نے قرض کی صراحت کرکے وہ رقم بیٹے کو دی تھی جس پر گواہ موجود ہیں تو وہ ان کے ترکے سے وصول کرسکتی ہیں، اور اگر قرض ہونے کی صراحت نہیں کی تھی تو یہ ان کی طرف سے تبرع ہے، اس کو واپس لینے کا حق نہیں؛ البتہ ترکے سے ان کا جتنا حصہ بطور وراثت بنتا ہوگا وہ ان کو ملے گا، جس کا مسئلہ ورثہ کی تفصیل بتلاکر معلوم کیا جاسکتا ہے۔

    فی البحر: فإذا أراد الرجوع أنفق علیہ بإذن القاضي فلو أنفق بلا أمرہ لیس لہ الرجوع في الحکم إلا یکون أشہد أنہ أنفق لیرجع الخ (4/341، باب النفقة، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند