• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 601340

    عنوان:

    دو بڑے بھائی دو بڑا فلیٹ لیں اور بہنوں كو حصہ كے طور پر ایك چھوٹا فلیٹ دیں‏، كیا یہ درست ہے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ حیدرآباد میں میری والدہ مرحومہ کی 500 گز پر مشتمل ایک جائیداد ہے۔ والدہ اور والد دونوں کا انتقال ہوچکا ہے ہم 3 بھائی اور 5 بہنیں ہیں۔ الحمداللہ سب بقید حیات ہیں۔ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ درپیش ہے۔ میرے بھائیوں نے اس جائیداد کو ڈولپمنٹ پر دینے کی تجویز رکھی ہے اور اس سلسلہ میں ایک پلان بھی تیار کیا گیا ہے جس کے مطابق اس جائیداد پر بلڈر 5 منزلہ اپارٹمنٹ تعمیر کریں گے جس میں ہر منزل پر 4 فلاٹس ہوں گے یعنی جملہ 20 فلاٹس تعمیر کئے جائیں گے جن میں 10 فلاٹس مالکین یعنی ہم بھائی بہنوں کو اور 10 فلاٹس بلڈر کو ملیں گے۔ چھٹی منزل پر 2 پینٹ ہاوز تعمیر کئے جائیں گے جن میں ایک ہم مالکین کو اور ایک بلڈر کو ملے گا۔ تنازعہ یہ پیدا ہورہا ہے کہ 20 فلاٹس میں 10‘ فلاٹس فی فلاٹ 11 سو اسکوائر فٹ پر مشتمل تین بیڈرومس کے ہوں گے اور 10 فلاٹس 9 سو اسکوائر فٹ پر مشتمل 2 بیڈ رومس ہوں گے۔ اس طرح 5 بڑے فلاٹس مالکین کو اور 5 بڑے فلاٹس بلڈر کو ملیں گے اس طرح 5 چھوٹے فلاٹس مالکین کے اور 5 چھوٹے فلاٹس بلڈر کے حق میں آئیں گے۔ ہمارے تینوں بھائی‘ فی بھائی 2 بڑے فلاٹس چاہتے ہیں جبکہ ہم پانچ بہنوں کو ایک ایک چھوٹا فلاٹ دینا چاہتے ہیں۔ہم بہنوں کا اصرار ہے کہ ہر منزل پر برابر رقبہ کے 4 فلاٹس بنائے جائیں اور شرعی اعتبار سے قرعہ اندازی کے ذریعہ آپس میں تقسیم عمل میں لائی جائے۔ ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ شرعی اعتبار سے بھائیوں کو 2 حصے اور بہنوں کو ایک حصہ ملنا چاہئے لیکن یہ کہاں کا شرعی موقف اور انصاف ہے کہ بھائی 2 حصوں کے طور پر دو بڑے فلاٹس لیں اور بہنوں کو ایک حصہ کے طور پر ایک ایک چھوٹا فلاٹ دیا جائے۔ اس سلسلہ میں آپ سے درخواست ہے کہ شرعی موقف کی وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 601340

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 374-93T/H=04/1442

     اصل یہ ہے کہ والدین مرحومین کے ترکہ کا حکم صورت مسئولہ میں یہ ہے کہ بعد اداءِ حقوقِ متقدمہ علی المیراث وصحتِ تفصیلِ ورثاءِ شرعی گیارہ (11) حصوں پر تقسیم کرکے دو دو (2-2) حصے تینوں بیٹوں کو ملیں گے اور ایک ایک (1-1) حصہ پانچوں بیٹیوں میں سے ہر ہر بیٹی کو ملے گا۔ اگر برابر برابر رقبہ کے دس فلیٹ بن جائیں اور ہر فلیٹ کی قیمتِ موجودہ مقرر کرلی جائے اور حصوں کے اعتبار سے زائد قیمت کا رقم کی صورت میں لین دین کرکے ہر بھائی بہن کے پورے پورے حصہ کی ادائیگی کرلی جائے تو یہ صورت بھی درست ہے۔ اگر فلیٹ چھوٹے بڑے بنائے بغیر کوئی چارہٴ کار نہ ہو تب بھی ہر فلیٹ کی قیمتِ موجودہ مقرر کرکے زائد قیمت کو رقم کی صورت میں لین دین کرکے ہر وارث کے حصہ کی کمی بیشی کو پوری کرلی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند