• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 601061

    عنوان: وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں ہوتی

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص تھے اور ان کے چار بیٹے تھے بڑے بیٹے کو سب سے پہلے گھر دیکر الگ کردیا لیکن اور کسی مال کا بٹوارہ نہیں ہوا تھا باقی تین ایک ساتھ رہ رہے تھے اسی دوران دو چھوٹے بھائیوں نے اپنے والد کو بہلا پھسلا کر جو زمین کا قیمتی رقبہ تھا اسو اپنے نام وصیت کرالی اور جو باقی مال تھا اس کا بٹوارہ والد کے انتقال کے بعد ہوا اب یہ قیمتی رقبہ چھوٹے بھائیوں کے نام وصیت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب مرحمت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 601061

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 166-142/D=04/1442

     بڑے بیٹے کو گھر الگ دے کر اگر قابض ومالک بنا دیا تو وہ اس مکان کا مالک ہوگیا اور اگر مالک بناکر نہیں دیا صرف رہنے کے اعتبار سے مکان الگ کر دیا تو اس صورت میں اس مکان کے مالک والد مرحوم ہی برقرار رہے جو ان کے انتقال کے بعد تمام ورثاء شرعی میں حصص شرعیہ کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔

    چھوٹا بھائی (بیٹا) باپ کا وارث ہوتا ہے اور وارث کے حق میں وصیت معتبر نہیں ہوتی۔ لا وصیة لوارث حدیث کی بنا پر۔ پس یہ رقبہ بھی تمام ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگا۔ تمام ورثاء کی تفصیل لکھتے تو حصہ تقسیم کر دیا جاتا۔ اور یہ وضاحت بھی کرتے کہ بڑے بھائی کو مکان مالک بنا کر دیا تھا یا صرف رہائش الگ کیا تھا؟


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند