• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 600603

    عنوان: میں چھ بیٹیوں اور تین بیٹیوں کے درمیان پروپرٹی کی تقسیم کیسے کروں؟

    سوال:

    میرا اپنا مکان ہے، میر ے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں جن میں سے دو بیٹی اور ایک بیٹے کا انتقال ہوگیاہے، بتائیں کہ چھ بیٹیوں اور تین بیٹیوں کے درمیان پروپرٹی کی تقسیم کیسے کروں؟

    واضح رہے کہ اس مکان میں میں دو منزلے ہیں، دوسری منزل کی تعمیر میرے پوتے کے 13,00,000 روپئے سے بنی ہے چار چھ سال پہلے، اور تمام فیملی ممبر سمجھ رہے تھے کہ میرا پوتا اس پیسہ اور تعمیر (فلور) کا مالک ہوگا۔

    ہجرت اور تقسیم کے زمانے سے بلڈنگ کی زمین میری ہے، اور اسی کی دہائی میں فرسٹ فلور بنا تھا میرے دو بڑے بیٹوں کے پیسے سے، مگر اس وقت اس تعمیری کام (فرسٹ فلور ) کے بارے میں کوئی واضح نظریہ نہیں تھا۔

    یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ شروع سے ہی ہم اس مکان میں مشترکہ فیملی کے طورپر رہتے ہیں ، بیٹیاں شادی کے بعد سے اپنے اپنے سسرال میں رہتی ہیں اور چار بیٹے کبھی کبھی اس مکان میں رہتے تھے، اس وقت میں اس گھر میں اپنے چار شدہ شدہ بیٹے اور اور دو شادہ شدہ پوتوں کے ساتھ رہتاہوں۔ براہ کرم، رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 600603

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 199-135/B=03/1442

     ابھی ماشاء اللہ آپ بقید حیات ہیں۔ جب تک آپ حیات ہیں اپنی جائداد کے تنہا مالک و مختار ہیں۔ آپ اپنی حیات میں جائداد اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو افضل یہ ہے کہ تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کرکے ہر ایک کا حصہ دے کر انھیں مالک و قابض بنادیں۔

    دوسری منزل کا حصہ جو پوتے نے اپنے پیسوں سے بنوایا ہے اگر اس نے پیسے لگاتے وقت یہ صراحت کر دی تھی کہ جس قدر پیسے میں لگا رہا ہوں یہ بطور قرض ہیں، میں بعد میں اسے وصول کروں گا، تو جس قدر بنوایا ہے وہ اس کا ہوگا، باپ حقدار نہ ہوگا۔ اور اگر پوتے نے ہمدردی اور صلہ رحمی میں پیسے لگائے ہیں تو وہ سب جائداد دادا کی ہوگی۔ دادا کو چاہئے کہ اپنے بیٹوں اور پوتوں کو اکٹھا کرکے سب کے سامنے پوتے سے معلوم کرے اگر وہ رقم لینا چاہتا ہے یا جس قدر حصہ اس نے بنوایا ہے وہ لینا چاہتا ہے اس کو دیدیا جائے۔ اور نہیں لینا چاہتا ہے تو آپ لوگ مشورہ کرکے حسب جواب سابق سب کو برابر برابر دے کر انھیں قابض و مالک بنادیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند