• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 600163

    عنوان: وراثت کا بٹوارہ والد صاحب کی وفات کے بعد

    سوال:

    میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیاہے، ان کے چار بیٹے ، دو بیٹی اور ایک بیوی ہے، مجھے یہ جاننا ہے کہ وراثت میں جو زمین والد صاحب چھوڑ گئے ہیں چھ کٹھا، تو اس کو کیسے تقسیم کیا جائے گاہم سب میں اسلامی شریعت کے حساب سے؟جو بھائی بہن اس میں بیمانی کرے گا یا کسی بھائی کا حق مارے گا تو ان کو کیا گناہ ملے گا دنیا و آخرت میں؟

    (۲) والد صاحب کے اکاؤنٹ میں 5,4400 روپئے ہیں، تواس کو کیسے تقسیم کریں؟چار بیٹوں، دو بیٹیوں اور ایک بیوی کے درمیان؟ والد صاحب نے اپنی زندگی میں کہا تھا کہ میں نے اس میں ڈھائی ڈھائی لاکھ دو بچوں ک لیے رکھا ہے، لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں اسے بچوں کو نہیں دیا اور وہ سارا پیسہ بینک میں رہ گیا اور اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو اس کا کیا حکم بنتاہے اب؟ اور اگر سب میں تقسیم ہوگی تو کتنا کتنا سب کو ملے گا؟ اور اگر اس میں بھی کوئی بھائی اور بہن بیمانی کرے یا سارا پیسہ رکھ لے تو اس کو کیا سزا ملے گی دنیا و آخرت میں ؟ جزاک اللہ خیرا

    جواب نمبر: 600163

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:31-31/sd=2/1442

    صورت مسئولہ میں والد صاحب کا ترکہ( بشمول زمین و رقم) بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث و عدم موانع ارث کل اسی حصوں میں تقسیم ہوگا جس میں سے اہلیہ کو دس حصے ، چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک کوچودہ چودہ حصے اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سات سات حصے ملیں گے ۔ والد مرحوم نے اگر اپنی زندگی میں دونوں بیٹوں کو رقم دے کر مالک نہیں بنایا تھا، تو محض ان کے کہنے کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، لہذا بینک میں جمع شدہ رقم بھی مذکورہ حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی اور اگر کوئی وارث حصہ شرعیہ میں دوسرے کا حق مارتا ہے ، تو عند اللہ ماخوذ ہوگا اور شرعا غاصب کہلائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند