معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 600049
میرے سسر کا انتقال ہوچکاہے، ان کے تین بیٹے تھے جس میں ایک سے ایک کا انتقال ہوگیاہے ان کے انتقال سے دو دن پہلے ہوا تھا، اور ان کی تین بیٹیاں ہیں، وراثت کی شکل میں صرف اور صرف ان کا ایک گھر ہے ، گھر بناتے وقت میرے سسر نے اپنے بیٹیوں سے کچھ رقم لی تھی ، میرا سوال یہ ہے کہ اب وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ اب گھر کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟ جو لوگ اپنا پیسہ لگائے ہیں اتنا ہی پیسہ ان کو ملے گا یا آج کے دور کے حساب سے ان کو آج کے دور کے حساب سے ان کا حصہ ملے گا؟ (اگر کوئی پانچ لاکھ دیے تھے تو اس کو صرف اور صرف پانچ لکھ ملیں گے یا پھر آج کے حساب سے کچھ زیادہ کا وہ مطالبہ کرسکتاہے یا زیادہ لے سکتاہے؟)براہ کرم، جواب دیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب نمبر: 600049
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:83-90/L=2/1442
آپ کے خسرمرحوم کی وفات کے وقت ان کے والدین ،دادا،دادی ،نانی اوراولاد میں سے جو بھی مرحوم کی وفات کے وقت حیات رہاہواس کی تفصیل لکھی جائے ،جس لڑکے کی وفات مرحوم کی وفات سے دودن پہلے ہوگئی تھی اس لڑکے یا اس کے ورثاء کا آپ کے خسر مرحوم کے ترکہ میں کوئی حصہ نہ ہوگا ،جہاں تک بیٹوں سے لیے گئے پیسوں کا مسئلہ ہے تو اگر بیٹوں نے والد صاحب کو رقم ہدیہ کی نیت سے دی تھی تو اب ان کی واپسی کا حکم نہ ہوگا اور اگر قرض کے طور پر دی تھی تو جتنی رقم دی تھی اتنی رقم کی واپسی مرحوم کے ترکہ سے کی جائے گی ،بیٹوں کاآج کے حساب سے زیادہ کا مطالبہ کرنا درست نہ ہوگا ۔
وکذلک لو قال: أقرضنی عشرة دراہم غلة بدینار، فأعطاہ عشرة دراہم فعلیہ مثلہا، ولا ینظر إلی غلاء الدراہم، ولا إلی رخصہا، وکذلک کل ما یکال ویوزن فالقرض فیہ جائز، وکذلک ما یعد من البیض والجوز اہ وفی الفتاوی الہندیة: استقرض حنطة فأعطی مثلہا بعد ما تغیر سعرہا یجبر المقرض علی القبول (شامی۷: ۳۹مطبوعة مکتبہ زکریا دیوبند) وفی التنویر : ہو- أی: القرض -عقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلیّ لآخر لیرد مثلہ اھ․ (التنویر مع الدر المختار وردالمحتار (۷:۳۸۸).
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند