• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 59848

    عنوان: والد صاحب کے پاس ایک سو گز کا ایک پلاٹ ہے جس کی قیمت تقربیا ً دو کروڑ ہے ، انہوں نے پورے پلاٹ کو اپنی کسی اولاد سے پوچھے بغیر مسجد کے نام کردیا ہے ، اور خود اپنے اخراجات کے لیے مسجد کے ممبران سے پچاس لاکھ روپئے لیے ہیں۔ انہوں اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کو ایک بھی روپیہ نہیں دیا ہے۔

    سوال: میں پروین زوجہ خلیل احمد ، رہائش ، سلیم پور ، دہلی، ہوں۔ میرے والد کی جائداد وارثین ہیں، چار بیٹے اور چار بیٹیاں۔والد صاحب کی عمر تقریباً ۹۰ سال ہے ، بوڑھاپہ کی وجہ سے وہ ڈپریشن کے شکار ہیں، والد صاحب کی تمام اولاد یعنی بیٹے او ربیٹیوں میں میں سب سے زیادہ غریب ہوں، والد صاحب کی ایک چائے کی دکان ہے، تمام وارثین میں کچھ والد صاحب کی جائداد میں حصہ چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے ہیں ۔ والد صاحب کے پاس ایک سو گز کا ایک پلاٹ ہے جس کی قیمت تقربیا ً دو کروڑ ہے ، انہوں نے پورے پلاٹ کو اپنی کسی اولاد سے پوچھے بغیر مسجد کے نام کردیا ہے ، اور خود اپنے اخراجات کے لیے مسجد کے ممبران سے پچاس لاکھ روپئے لیے ہیں۔ انہوں اپنی کسی بیٹی یا بیٹے کو ایک بھی روپیہ نہیں دیا ہے۔ براہ کرم، بتائیں کہ شریعت کی روشنی میں یہ درست ہے یا نادرست ہے؟براہ کرم، فتوی دیں۔

    جواب نمبر: 59848

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 778-774/B=8/1436-U والد صاحب اپنی حیات میں اپنی ساری جائیداد کے مالک ومختار ہیں، وہ اپنی اولاد کو بھی دے سکتے ہیں اور مسجد میں بھی دے سکتے ہیں، لیکن حدیث شریف میں آ یا ہے کہ اللہ کی راہ میں دینے کے بجائے اپنی اولاد کو دینا اور انھیں اس لائق بنادینا کہ باپ کے مرنے کے بعد وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں، اولاد کے ضرورت مند ہوتے ہوئے مسجد کو دینا کوئی اجر وثواب کا کام نہیں۔ یہ والد صاحب نے بہت بڑی نادانی اور بیوقوفی کا کام کیا، ایک حدییث میں آیا ہے، جس کسی نے بلاوجہ اپنے وارث کا حصہ کاٹ دیا اللہ تعالیٰ قیامت کے اندر جنت سے اس کا حصہ کاٹ دیں گے، یہ بہت محرومی اور بدنصیبی کی بات ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند