معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 58821
جواب نمبر: 58821
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 376-341/Sn=6/1436-U صورت مسئولہ میں والدہ نے اپنی جائداد کی تقسیم کے حوالے سے جو وصیت فرمائی ہے وہ میراث کے شرعی ضابطے کے مطابق نہیں ہے؛ اس لیے اس پر عمل درآمد تمام ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر تمام ورثاء والد کے حسب منشا ”فلیٹ“ کی تقسیم پر آمادہ ہیں تو اس کے مطابق تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ مستحسن ہے، اگر بعض ورثاء راضی ہیں اور بعض راضی نہیں ہیں، تو راضی نہ ہونے والوں کواصول شریعت کے مطابق ترکہ والدہ میں سے حصہ دینا ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ اگر آپ کے والد باحیات ہیں یا آپ کی کوئی بہن بھی ہے تو والد اور بہن کی رضامندی بھی ضروری ہے، اگر وہ رضامند نہیں ہیں تو شرعی ضابطے کے مطابق ان کا جو حصہ بنتا ہے اتنا انھیں دینا ضروری ہے، شرعی اصول کے مطابق تقسیم کیسے ہوگی؟ کسے کتنا ملے گا؟ ورثاء کی تفصیل لکھنے پر اس کا جواب لکھا جاسکتا ہے۔ ولا تجوز لوارثہ․․․․ إلا أن یجیزہا الورثة․․․ ولو أجاز بعذ وردّ بعض تجوز علی المجیز بقدر حصتہ الخ (ہدایہ، ۴/ ۶۴۱، مصطفائی)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند