• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 58821

    عنوان: والدہ نے اپنی زندگی میں وراثت جوایک فلیٹ ہے طے کردی تھی...

    سوال: والدہ نے اپنی زندگی میں وراثت جوایک فلیٹ ہے طے کردی تھی تین بیٹوں کے درمیان اور یہ کہا تھا کیونکہ چھوٹے بیٹے نے میری خدمت کی اور اتنا سیٹل بھی نہیں ہے جتنے دوسرے ہیں لہذا چھوٹے بیٹے کو پچاس فیصد ملے گا اور بقایا دونوں بھایوں کو پچیس پچیس فیصد ملے گا اس بات پر دونوں بھائی راضی تھے اب والدہ کا انتقال ہوگیا ہے توان میں سے ایک بھائی اپنے پچیس فیصد کا مطالبہ کررہا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ یہ تقسیم وراثت قرآن وحدیث کے مطابق ہے یانہیں۔

    جواب نمبر: 58821

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 376-341/Sn=6/1436-U صورت مسئولہ میں والدہ نے اپنی جائداد کی تقسیم کے حوالے سے جو وصیت فرمائی ہے وہ میراث کے شرعی ضابطے کے مطابق نہیں ہے؛ اس لیے اس پر عمل درآمد تمام ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہے، اگر تمام ورثاء والد کے حسب منشا ”فلیٹ“ کی تقسیم پر آمادہ ہیں تو اس کے مطابق تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ مستحسن ہے، اگر بعض ورثاء راضی ہیں اور بعض راضی نہیں ہیں، تو راضی نہ ہونے والوں کواصول شریعت کے مطابق ترکہ والدہ میں سے حصہ دینا ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ اگر آپ کے والد باحیات ہیں یا آپ کی کوئی بہن بھی ہے تو والد اور بہن کی رضامندی بھی ضروری ہے، اگر وہ رضامند نہیں ہیں تو شرعی ضابطے کے مطابق ان کا جو حصہ بنتا ہے اتنا انھیں دینا ضروری ہے، شرعی اصول کے مطابق تقسیم کیسے ہوگی؟ کسے کتنا ملے گا؟ ورثاء کی تفصیل لکھنے پر اس کا جواب لکھا جاسکتا ہے۔ ولا تجوز لوارثہ․․․․ إلا أن یجیزہا الورثة․․․ ولو أجاز بعذ وردّ بعض تجوز علی المجیز بقدر حصتہ الخ (ہدایہ، ۴/ ۶۴۱، مصطفائی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند