• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 58730

    عنوان: اپنے کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے میں نے شادی نہیں کی ہے

    سوال: اپنے کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے میں نے شادی نہیں کی ہے، اور اس وقت میری عمر ۵۴ سال ہے، میں ایک گزٹڈ آفیسر ہوں، میری دو بہنیں اور تین بھائی ہیں، پانچ سال پہلے میرے والدین کا انتقال ہوگیا ہے، میں اپنے دو بھائی کی فیملی کی مالی مدد کرتاہوں، کیوں کہ وہ مالی اعتبار سے کمزور ہیں، ایک بھائی کے بچوں کی تعلیمی ذمہ داری میں نے لے لی ہے، اب والدین کے انتقال کے بعد جو میں پیسے کما رہا ہوں اور اپنی کمائی سے جو میں نے گھر بنایا ہے اس کے لئے وہ سب مجھے تنگ کررہے ہیں کہ اگر میں ان کی بات نہیں مانتاہوں تو انہوں نے مجھے جان سے ماردیں گے ۔ والدین نے اپنی حیات میں مجھے گھر کا ایک حصہ دیاتھا،اس موروثی جائداد میں میری دو بہنیں قابض ہیں، میری دو بہنیں خوشحال ہیں، ان کی کروڑوں کی اپنی جائداد ہے، ان کے بچے بھی کافی خوشحال ہیں اور بیرون ملک میں ایم این سی میں ملازم ہیں۔میرے تمام بھائیوں اور بہنوں نے میری جائداد کو جو موروثی ہے اور جو میں نے اپنی کمائی سے بنائی ہے، کومجھ سے چھین لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب میں اپنی محنت سے کمائی ہوئی جائداد سے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو بے دخل کرنا چاہتاہوں اور ان سے الگ ہو اپنی تنخواہ پر گذر بسر کرنا چاہتاہوں۔میں کیسے اسب کو اپنی جائداد سے بے دخل کروں اور ان کو اپنے سے دور کروں تاکہ میں سکون سے رہ سکوں؟شکریہ ۔ والسلام

    جواب نمبر: 58730

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 344-344/Sd=7/1436-U

    اگر اللہ نے آپ کو مالی اعتبار سے وسعت دے رکھی ہے تو آپ بدستور اپنے تنگ دست بھائیوں اور ان کے بچوں کی مالی مدد کرتے رہیں، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر احادیث میں بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، آپ کے والد نے اگر اپنی زندگی میں مذکورہ گھر کے ایک حصے کا مالک وقابض بنادیا تھا، اور خود اس سے مکمل دستبردار ہوگئے تھے، تو اس حصے کے تنہا آپ ہی مالک ہیں، دیگر ورثاء کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، اگر آپ کے بھائی بہن اس حصے کو چھیننا چاہتے ہیں، تو وہ غلط کررہے ہیں، اس کی وجہ سے روزِ قیامت ان کو جواب دینا ہوگا، اور اگر والد صاحب نے آپ کو مذکورہ گھر کا ایک حصہ صرف یونہی رہنے کے لیے دیا تھا، باقاعدہ ہبہ کرکے مالک وقابض نہیں بنایا تھا، تو یہ حصہ ان کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء کے مابین حسب حصص شرعیہ تقسیم ہوگا۔ آپ اپنی مملوکہ جائداد کو بچانے کے لیے کوئی بھی جائز مناسب تدبیر کرسکتے ہیں؛ لیکن بھائی بہنوں سے الگ ہونا، ان کو اپنے سے دور کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے، آپ ان کے ساتھ احسان ہی کا معاملہ رکہیں، خوش اخلاقی سے پیش آئیں، بہتر یہ ہے کہ مقامی کسی تجربہ کار عالم دین بزرگ سے آپ ربط اور تعلق قائم کرلیں اور اپنے احوال ان کو بتاکر ان کے رائے مشورے پر عمل کریں۔ اس میں ان شاء اللہ خیر ہوگی، اللہ آپ کی مدد کرے، ہم بھی دعاء کرتے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند