معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 58730
جواب نمبر: 58730
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 344-344/Sd=7/1436-U
اگر اللہ نے آپ کو مالی اعتبار سے وسعت دے رکھی ہے تو آپ بدستور اپنے تنگ دست بھائیوں اور ان کے بچوں کی مالی مدد کرتے رہیں، رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر احادیث میں بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، آپ کے والد نے اگر اپنی زندگی میں مذکورہ گھر کے ایک حصے کا مالک وقابض بنادیا تھا، اور خود اس سے مکمل دستبردار ہوگئے تھے، تو اس حصے کے تنہا آپ ہی مالک ہیں، دیگر ورثاء کا اس میں کوئی حق نہیں ہے، اگر آپ کے بھائی بہن اس حصے کو چھیننا چاہتے ہیں، تو وہ غلط کررہے ہیں، اس کی وجہ سے روزِ قیامت ان کو جواب دینا ہوگا، اور اگر والد صاحب نے آپ کو مذکورہ گھر کا ایک حصہ صرف یونہی رہنے کے لیے دیا تھا، باقاعدہ ہبہ کرکے مالک وقابض نہیں بنایا تھا، تو یہ حصہ ان کے ترکہ میں شامل ہوکر ورثاء کے مابین حسب حصص شرعیہ تقسیم ہوگا۔ آپ اپنی مملوکہ جائداد کو بچانے کے لیے کوئی بھی جائز مناسب تدبیر کرسکتے ہیں؛ لیکن بھائی بہنوں سے الگ ہونا، ان کو اپنے سے دور کرنا مسئلہ کا حل نہیں ہے، آپ ان کے ساتھ احسان ہی کا معاملہ رکہیں، خوش اخلاقی سے پیش آئیں، بہتر یہ ہے کہ مقامی کسی تجربہ کار عالم دین بزرگ سے آپ ربط اور تعلق قائم کرلیں اور اپنے احوال ان کو بتاکر ان کے رائے مشورے پر عمل کریں۔ اس میں ان شاء اللہ خیر ہوگی، اللہ آپ کی مدد کرے، ہم بھی دعاء کرتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند