• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 5821

    عنوان:

    میر ی ماں کو میرے والد صاحب نے ۱۹۸۲ء میں طلاق دی۔ اس کے دو لڑکے ہیں۔ اس نے دوسری شاد ی نہیں کی۔ لیکن میرے والد نے دوسری شادی کرلی۔ اس عورت سے والد صاحب کا ایک اور لڑکا ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ ہم والدصاحب کی جائیداد کی تقسیم کیسے کریں؟ (۱) چھ کمروں کا ان کاایک مکان ہے۔ ان چھ کمروں سے ہم کو کتنا حصہ ملے گا؟ (۲) وہ ٹیچر تھے اور ۲۰۰۷ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اپنی نوکری کے دوران انھوں نے تقریباً چالیس لاکھ روپیہ کمائے جس میں تنخواہ،اجر، جی پی فنڈ اور دوسرے الاؤنس وفتاً فوقتاً بھی شامل ہیں۔اس وقت میں ۲۹/سال کا ہوں اور میرا بھائی ۲۶/سال کا ہے۔ ۱۹۸۲ء سے انھوں نے ہمارے اوپر صرف ۰۰۰،۷۰/ سے ۰۰۰،۹۰/روپئے تک خرچ کئے اور بقیہ دوسری بیوی کے لڑکے پر خرچ کیا۔ اب ہم اس معاملہ کو کیسے حل کریں تاکہ ہر معاملہ امن کے ساتھ ختم ہوجائے۔ اگر انھوں نے کچھ رقم چھوڑا ہو تو ہم دونوں بھائیوں کو اس میں سے کتنا حصہ ملے گا؟

    سوال:

    میر ی ماں کو میرے والد صاحب نے ۱۹۸۲ء میں طلاق دی۔ اس کے دو لڑکے ہیں۔ اس نے دوسری شاد ی نہیں کی۔ لیکن میرے والد نے دوسری شادی کرلی۔ اس عورت سے والد صاحب کا ایک اور لڑکا ہے۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ ہم والدصاحب کی جائیداد کی تقسیم کیسے کریں؟ (۱) چھ کمروں کا ان کاایک مکان ہے۔ ان چھ کمروں سے ہم کو کتنا حصہ ملے گا؟ (۲) وہ ٹیچر تھے اور ۲۰۰۷ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اپنی نوکری کے دوران انھوں نے تقریباً چالیس لاکھ روپیہ کمائے جس میں تنخواہ،اجر، جی پی فنڈ اور دوسرے الاؤنس وفتاً فوقتاً بھی شامل ہیں۔اس وقت میں ۲۹/سال کا ہوں اور میرا بھائی ۲۶/سال کا ہے۔ ۱۹۸۲ء سے انھوں نے ہمارے اوپر صرف ۰۰۰،۷۰/ سے ۰۰۰،۹۰/روپئے تک خرچ کئے اور بقیہ دوسری بیوی کے لڑکے پر خرچ کیا۔ اب ہم اس معاملہ کو کیسے حل کریں تاکہ ہر معاملہ امن کے ساتھ ختم ہوجائے۔ اگر انھوں نے کچھ رقم چھوڑا ہو تو ہم دونوں بھائیوں کو اس میں سے کتنا حصہ ملے گا؟

    جواب نمبر: 5821

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1235=904/ ھ

     

    بعد ادائے حقوق متقدمہ علی المیراث وصحت تفصیل ورثہ والد مرحوم کا کُل مال متروکہ بوقت وفات (جائداد رقم وغیرہ تمام اشیاء) چوبیس حصوں پر تقسیم کرکے تین حصے مرحوم کی دوسری موجودہ بیوی کو اور سات سات حصے تینوں بیٹوں کو ملیں گے ،اگر والد مرحوم نے کوئی بیٹی یا اپنے ماں باپ میں سے کسی کو چھوڑا ہو تو سوال دوبارہ کریں او رایسی صورت میں ایسی صورت میں اس حکم کو کالعدم سمجھیں۔

    نوٹ اگر والد صاحب کی وفات نہ ہوئی ہو تو سوال دوبارہ کریں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند