عنوان: تین بیویاں ہیں۔ میراث
سوال: محترم نظام الدین صاحب کی تین بیویاں ہیں، پہلی بیوی سے ایک لڑکی ہے اور ایک لڑکا گود لئے ہیں،دوسری بیوی سے تین لڑکیاں ہیں،تیسری بیوی سے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہیں،تینوں بیویاں اور ان کی ساری اولاد حیات ہیں۔نظام الدین صاحب کی ملکیت پہلا روم : پہلی بیوی کے نام پر ہے جس میں پہلی بیوی اور نظام الدین صاحب خود رہتے ہیں۔دوسرا روم پہلی بیوی کے نام پر ہے جس میں پہلی بیوی کا لے پالک رہتا ہے ۔تیسرا روم پہلی بیوی کے نام پر ہے جس میں زوجئہ ثانیہ اور اس کی تین لڑکیاں رہتی ہیں۔چوتھا روم نظام الدین صاحب کے نام پر ہے جس میں زوجئہ ثالثہ اور اس کا ایک فرزند رہتا ہے ۔چوتھا روم نظام الدین صاحب کے نام پر ہے جو کرایہ پر ہے اور اس کا بھاڑا پہلی بیوی اور ثانیہ میں تقسیم ہوتا ہے ۔ایک گھر گاؤں میں ہے زوجئہ اولی کے نام پر... اور ایک کھیت ہے ہے محترم نظام الدین کے نام پر....
اب دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کس ملکیت پر میراث لازم ہو گی؟ اور کون کون اس کا حقدار ہوگا؟ اور کتنا فیصدی حقدار ہوگا؟۔
برائے مہربانی جلد از جلد مسئلہ میں غور فرما کر قرآن و حدیث کے تحت تصلی بخش جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔
جواب نمبر: 5819901-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 474-364/D=5/1436-U
نظام الدین صاحب کے انتقال کے وقت جو چیزیں ان کی ملکیت میں ہوں گی وہ ان کا ترکہ بنیں گی اور ان کے جو ورثاء اس وقت باحیات رہیں گے انہیں حصہ شرعیہ کے مطابق ملے گا وراثت کی تقسیم مرنے کے بعد ہوتی ہے۔
زندگی میں جو کچھ کسی کو دیا جاتا ہے وہ ہبہ کہلاتا ہے، ہبہ میں صرف نام کردینا کافی نہیں ہوتا بلکہ الگ کرکے موہوب لہ کے قبضہ دخل میں دیدینا ضروری ہوتا ہے لہٰذا آپ اولاً یہ وضاحت کریں کہ نظام الدین صاحب باحیات ہیں یا انتقال کرچکے ہیں۔
(۲) نیز مذکور فی السوال مکان، کھیت میں سے جو چیزیں دوسروں کے نام ہیں کیا وہ خود ان کی ملکیت ہیں یا نظام الدین صاحب کی تھیں مگر انھوں نے مذکورہ لوگوں کو دے کر مالک وقابض بنادیا ہے؟ یا صرف ان کے نم کیا ہے؟ ہرچیز کی کییت الگ الگ تحریر کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند