• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 57707

    عنوان: تین بہن ،د و بھائی اور والدہ حیات ہیں، چار سال پہلے والد کا انتقال ہوگیا ہے

    سوال: والد کے انتقال کے بعد ماں، بھائی اور بہنوں کتنا حصہ ہے؟ ہم تین بہن ،د و بھائی اور والدہ حیات ہیں، چار سال پہلے والد کا انتقال ہوگیا ہے، ترکے میں آٹھ سے دس دکانیں، زمین اور گھر مکانات ہیں، اب والد کے انتقال کے بعد تمام جائداد کی دیکھ ریکھ سبھی بھائی کررہے ہیں ،ایک دکان میں میرے بڑے بھائی بزنس کررہے ہیں، اور بقیہ دکانیں کرایہ پر ہیں، بہن ہونے کے ناطے ہم اپنے بھائیوں کا بہت احترام کرتے ہیں،کیوں کہ ہم ان سے چھوٹے ہیں، نیز ہم بہنوں کو تقسیم جائداد کے بارے میں بات کرنے سے ڈر لگتاہے، ہم اپنی ماں سے بھی ڈر تے ہیں، والد کے انتقال کے بعد والدہ مکمل طورپر بھائیوں پر منحصر ہیں، چار سال سے والدہ بھائیوں کے ساتھ رہتی ہیں، کبھی کبھار وہ ہمارے پاس آتی ہیں، ہم والدہ سے سنتے ہیں کہ ہمیں کچھ رقم ملے گی اور ہر بہن کوایک ایک دکان ملے گی، لیکن ہم نے کبھی کھل کر بات نہیں کی، ہم بہنوں نے بھائیوں پر چھوڑدیا ہے کہ ہمیں وہ کیا دیں گے اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے اور ہم خوشی سے اس کو قبول کرلیں گے اور اللہ سبحانہ وتعالی پر چھوڑی دیں گے تاکہ ہم بھائیوں بہنوں کے درمیان تعلقات اچھے رہیں۔ براہ کرم، شریعت کے مطابق ہماری رہنمائی فرمائیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟

    جواب نمبر: 57707

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 529-529/M=6/1436-U

    مورث کے انتقال کے بعد میت نے جتنا ترکہ چھوڑا ہے، اس میں تجہیز وتکفین، دین ووصیت کے بعد ورثہ کے حقوق اور حصے متعلق ہوجاتے ہیں کسی وارث کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ دوسرے وارث کے حق میں تصرف کرے؛ لہٰذا مسئولہ صورت میں اگر والد صاحب مرحوم نے انتقال کے وقت اپنے ورثہ میں صرف دو لڑکے، تین لڑکیاں اور ایک بیوی کو چھوڑا ہے تو والد مرحوم کا کل ترکہ آٹھ سہام پر منقسم ہوگا جن میں سے ہرایک لڑکے کو دو دو سہام اور ہرایک لڑکی اور بیوی کو ایک ایک سہام ملے گا، اور بھائیوں کو چاہیے کہ جلد از جلد والد مرحوم کا ترکہ آپس میں شرعی طریقہ پر تقسیم کرلیں اور ہروارث کو اس کا مقررہ حصہ دے کر ذمہ فارغ کرلیں۔ مسئلہ کی تخریج یہ ہے: ابن=۲ ابن=۲ بنت=۱ بنت=۱ بنت=۱ زوجہ=۱


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند