معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 52546
جواب نمبر: 52546
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 706-139/D=6/1435-U والد نے اپنی زندگی میں اپنی مملوکہ جائداد بیٹوں کے درمیان تقسیم کرکے اگر انھیں مالک وقابض بنادیا توجس کو جو ہبہ کیا وہ اس کا مالک ہوگیا، ہبہ کرنے میں والد کو لڑکوں کے حصے میں کم وبیش کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے بشرطیکہ کسی وارث کو ضرر پہنچانے یا محروم کرنے کا قصد نہ ہو اگر اس کا قصد ہوا تو والد کو گناہ ہوسکتا ہے، لیکن موہوب لہ (جنھیں ہبہ کیا گیا ہے) کی ملکیت اپنے اپنے حصہ میں ثابت ہوجائے گی، لہٰذا بھائی کا اعتراض اگر والد کی تقسیم اور ہبہ پر ہے تو اب مناسب نہیں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ جہاں تک مکان موہوبہ میں لڑکے کے رقم لگانے کی بات ہے تو اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں: (الف) لڑکے نے مکان میں شرکت کے طور پر رقم لگائی تھی تو بقدر شرکت لڑکا ذاتی طور پر مکان کا مالک ہوا اور بقیہ حصہ کا والد کی طرف سے اس کوہبہ ہوگیا۔ (ب) والد کو امداد وتعاون کے طور پر رقم دی تھی تو پورے مکان کے مالک والد ہوئے پھر پورے کا حصہ انھوں نے لڑکے کو کردیا۔ (ج) قرض کے طور پر دی ہو اور لڑکے کے پاس اس کا ثبوت ہو جسے دوسرے ورثہ بھی تسلیم کرتے ہوں مثلاً والد نے دوسرے ورثہ کے سامنے قرض ہونے کا اقرار کیا ہو تو ایسی صورت میں قرض کی رقم والد کے ترکہ میں سے لڑکے کو لینے کا حق ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند