معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 52311
جواب نمبر: 52311
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 627-490/D=6/1435-U وراثت مرنے کے بعد تقسیم ہوتی ہے، پس اگر والد کا انتقال ہوچکا اور ان کے ورثا میں تین لڑکے تین لڑکیاں موجود ہیں والد مرحوم کی زوجہ اوروالدین پہلے ہی فوت ہوچکے ہوں تو آپ کا حساب درست ہے، دو دو حصے ہرلڑکے کو ایک ایک حصہ ہرلڑکی کو ملے گا، لیکن اگر والد مرحوم کی بیوی یا والد مرحوم کے والدین میں سے کوئی والد کے انتقال کے وقت باحیات رہا ہو تو تقسیم کا طریقہ بدل جائے گا، لہٰذا اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کیجیے۔ (۲) لڑکی تقسیم سے پہلے اپنا حصہ سب بھائیوں کودیدے اس سے ہمیشہ کے لیے اس کا یا اس کی اولاد کا حق ختم نہیں ہوگا، بلکہ کبھی بھی مطالبہ کرسکتی ہے، اور تقسیم سے پہلے کسی ایک بھائی کو دینا بھی درست نہیں ہے، لہٰذا مکان یا اس کی قیمت میں لڑکی کا جوحصہ آئے وہ اسے دیدیا جائے، پھر وہ جسے چاہے دے۔ ہاں اگر اپنے حصہ کا کوئی جز خواہ رقم کی شکل میں ہو مکان، سامان کی شکل میں ہو لے کر اپنے بقیہ حصے سے دست بردار ہو جائے تو ایسا کرنا درست ہے، مابقی لڑکی علاوہ دوسرے سب ورثا میں حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند