• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 5143

    عنوان:

    میرے نانا کا انتقال 1992ء میں ہوا ۔ انھوں نے ایک بیوی، ایک لڑکا، چھ لڑکیاں اور ایک خطیر رقم چھوڑی۔ اس وقت میرے ماموں نے تمام لوگوں سے شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کو کہا۔ تمام چھ بہنوں نے کہا کہ وہ حصہ لینا نہیں چاہتی ہیں اور انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنا حصہ آپ کو دے دیا۔ اب 16/سال کے بعد ایک بہن کہتی ہے کہ وہ جائیداد کی اس قیمت کی بنیاد پر اپنا حصہ لینا چاہتی ہے جو 1992ء میں تھی۔بہر حال ماموں نے سولہ سال کے اندرکاروبار میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا اور اب ان کی مالی حالت بہت کمزور ہے۔ ان کی تین لڑکیاں غیر شادی شدہ اوردو لڑکے (پانچ سال، اورایک سال) کے ہیں۔ کیا میری خالہ کا دعوی صحیح ہے، اگر ہاں تو کس مناسبت سے؟

    سوال:

    میرے نانا کا انتقال 1992ء میں ہوا ۔ انھوں نے ایک بیوی، ایک لڑکا، چھ لڑکیاں اور ایک خطیر رقم چھوڑی۔ اس وقت میرے ماموں نے تمام لوگوں سے شریعت کے مطابق تقسیم کرنے کو کہا۔ تمام چھ بہنوں نے کہا کہ وہ حصہ لینا نہیں چاہتی ہیں اور انھوں نے کہا کہ ہم نے اپنا حصہ آپ کو دے دیا۔ اب 16/سال کے بعد ایک بہن کہتی ہے کہ وہ جائیداد کی اس قیمت کی بنیاد پر اپنا حصہ لینا چاہتی ہے جو 1992ء میں تھی۔بہر حال ماموں نے سولہ سال کے اندرکاروبار میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا اور اب ان کی مالی حالت بہت کمزور ہے۔ ان کی تین لڑکیاں غیر شادی شدہ اوردو لڑکے (پانچ سال، اورایک سال) کے ہیں۔ کیا میری خالہ کا دعوی صحیح ہے، اگر ہاں تو کس مناسبت سے؟

    جواب نمبر: 5143

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 489=464/ ل

     

    جی ہاں! آپ کی خالہ کا دعویٰ کرنا صحیح ہے کیونکہ اگر وارث حق معاف کرنے کے بعد اپنا حق لینا چاہے تو شرعا لے سکتا ہے، حق وراثت ایسا حق ہے جو معاف کردینے سے معاف نہیں ہوتا بلکہ بعد میں بھی اس کو مطالبہ کا حق ہوتا ہے: لو قال الوارث: ترکت حقي لم یبطل حقہ إذ الملک لا یبطل الترک (الأشباہ والنظائر: 3/35، ط پاکستان)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند