معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 47379
جواب نمبر: 47379
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1287-262/D=12/1434-U والد مرحوم نے جو کچھ ترکہ از قسم منقولہ وغیرمنقولہ چھوڑا ہے جس میں آبائی مکان، دو فلیٹ بینک میں جمع رقم میں شامل ہوگی، کل ترکہ ایک سو بیس حصوں میں منقسم ہوکر پندرہ حصے باحیات بیوی کے، چودہ چودہ حصے پانچوں لڑکوں میں سے ہرلڑکے کو اور سات سات حصے پانچوں لڑکیوں میں سے ہرلڑکی کو ملیں گے۔ نوٹ: (۱) آبائی مکان بھی وراثت میں تقسیم ہوگا ۔اگر اس مکان کو تنہا ایک لڑکا لینا چاہتا ہے تو اس کی قیمت لگاکر فلیٹ اور نقد روپے میں اس کا جو حصہ ہورہا ہے ان کے بدلہ معاوضہ کا معاملہ کرلیں، اگر آبائی مکان کی قیمت ان چیزوں میں لڑکے کو ملنے والے حصے سے زائد ہو تو زائد رقم اس سے لے لیں، لیکن یہ معاوضہ کا معاملہ کرنا اس شرط پر جائز ہوگا کہ سب ورثہ اس پر راضی ہوں ورنہ تو ہروارث اصل مکان میں ہی حصہ لینے کا حق رکھتا ہے۔ نوٹ: (۲) نقد رقم جو بینک میں جمع ہے وہ بھی ترکہ بن کر تقسیم ہوگی ، لڑکیوں کو دینا چاہتے تھے اب بے فائدہ ہوگیا، اگر زندگی میں تقسیم کرکے ہرلڑکی کے حوالے کردیتے تب تو لڑکیاں مالک ہوجاتیں لیکن محض کہنے یا ارادہ کرنے سے مالک نہیں ہوئیں۔ نوٹ: فلیٹ اور نقد رقم بھی اسی طرح تقسیم کرلیں جو نمبر (۱) میں لکھا گیا۔ کل ترکہ درج ذیل طریقہ پر تقسیم ہوگا۔ (التخریج) بیوی= ۱۵۔ لڑکا=۱۴۔ لڑکا=۱۴۔ لڑکا=۱۴۔ لڑکا=۱۴۔ لڑکا=۱۴۔ لڑکی=۷۔ لڑکی=۷۔ لڑکی=۷۔ لڑکی=۷۔ لڑکی=۷۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند