• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 4606

    عنوان:

    میرے سسر نے اپنی تیس فیصد دولت کی ایک وصیت لکھی ہے: (۱) اپنی متوفیہ لڑکی کے لڑکوں کے لیے۔ (۲)زندہ لڑکوں/لڑکیوں کے بچوں کے لیے تحفہ۔ (۳) مسجد اورمدرسہ۔ (۴)اپنے غریب رشتہ داروں کے لیے۔ میرے شوہر کے اہل خانہ نے حصوں کو تقسیم کیا بشمول متوفیہ لڑکی کے لڑکوں کے۔اور صیت میں مذکور نمبردو، تین اور چار کو حصہ تقسیم نہیں کیا، بلکہ رقم کو زندہ قانونی وارثوں اور اپنے درمیان تقسیم کرلیا۔اس وصیت کو تقسیم کرنے سے پہلے قانونی وارث پہلے ہی اپنا واجب الاداجائیداد کا ستر فیصد حصہ پاچکے ہیں جس کو میرے سسر نے چھوڑا۔ کیا شریعت کے مطابق وہ لوگ ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں؟ برائے کرم اوپر مذکور مسئلہ میں اپنی رائے دیں۔

    سوال:

    میرے سسر نے اپنی تیس فیصد دولت کی ایک وصیت لکھی ہے: (۱) اپنی متوفیہ لڑکی کے لڑکوں کے لیے۔ (۲)زندہ لڑکوں/لڑکیوں کے بچوں کے لیے تحفہ۔ (۳) مسجد اورمدرسہ۔ (۴)اپنے غریب رشتہ داروں کے لیے۔ میرے شوہر کے اہل خانہ نے حصوں کو تقسیم کیا بشمول متوفیہ لڑکی کے لڑکوں کے۔اور صیت میں مذکور نمبردو، تین اور چار کو حصہ تقسیم نہیں کیا، بلکہ رقم کو زندہ قانونی وارثوں اور اپنے درمیان تقسیم کرلیا۔اس وصیت کو تقسیم کرنے سے پہلے قانونی وارث پہلے ہی اپنا واجب الاداجائیداد کا ستر فیصد حصہ پاچکے ہیں جس کو میرے سسر نے چھوڑا۔ کیا شریعت کے مطابق وہ لوگ ایسا کرنے میں حق بجانب ہیں؟ برائے کرم اوپر مذکور مسئلہ میں اپنی رائے دیں۔

    جواب نمبر: 4606

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 891=919/ د

     

    ۲،۳،۴ میں بھی مطابق وصیت تقسیم کرنا واجب ہے۔ اہل خانہ کا باہم تقسیم کرکے خود لے لینا اورمطابق وصیت خرچ نہ کرنا سخت گناہ بڑی خیانت ہے، اب بھی ان کواپنے اپنے حصے میں سے مواقع وصیت میں مطابق وصیت خرچ کرنا لازم ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند