معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 42149
جواب نمبر: 4214901-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1609-1026/L=12/1433 بیٹے کی اپنی کمائی ہوئی آمدنی جو اس کے پاس ہے اس کا مالک وہ خود لڑکا ہی ہے والد اس کا مالک نہیں ہے، البتہ اگر رقم کماکر والد کو بطور ہبہ دیدے تو والد اس رقم کا مالک ہوجائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
ایك بیوی چار لڑكے اور تین لڑكیوں كے درمیان تقسیم وراثت
1936 مناظرمیری بہن کا انتقا ل ہوگیاہے، پسماندگان میں شوہر، دو بیٹے، ایک بھائی (میں خود) باب اور ماں ہیں۔ ہم لوگ شریعت کی روشنی میں اس کے پیسے تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ براہ کرم، اس سلسلے میں مدد فرمائیں۔
1587 مناظرجائیداد کی تقسیم کا صحیح وقت کیا ہے؟ باپ کے انتقال کے بعد یا ماں اور باپ دونوں کی وفات کے بعد؟
5892 مناظرہمارے افراد خانہ میں والد، ماں، دو لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں ہم لوگ اپنے گاؤں کے آبائی مکان میں رہتے ہیں۔ میں دو لڑکوں میں سے ایک ہوں۔ میری ماں کا انتقال 2003 میں ہوااور میرے والد صاحب کا 2004 میں۔ جس دن میرے والد صاحب کا انتقال ہوا تو میں نے اپنے بہنوئی سے کہا جو کہ ہمارے گھر کے ذمہ دار شخص ہیں کہ میری چھوٹی بہن سے کہیں (جو کہ ہمارے آبائی مکان میں بہت دنوں سے قابض ہے)مکان کو چار سے چھ ماہ کے درمیان میں خالی کردے تاکہ اس کو فروخت کردیا جائے اور شرعی قانون کے مطابق اس کو جائز وارثوں میں تقسیم کردیا جائے۔ میں آپ سے دو سوالات کے جوابات چاہتا ہوں: (۱) کیا اپنی بہن سے والد صاحب کے انتقال کے دن سے چار سے پانچ ماہ کے اندر مکان خالی کرنے کو کہنا گناہ ہے؟ (۲) اس طرح کی صورت حال میں اسلامی طریقہ کیا ہونا چاہیے جب کہ میری بہن نے آبائی مکان کو آج کی تاریخ (یعنی 18/10/2008) تک خالی نہیں کیا ؟ میں اپنے رخ کو واضح کرنا چاہتاہوں۔ میری بہن ہر وقت اس کے بارے میں مجھے لعن طعن کر رہی ہے۔
1799 مناظرہم سات بھائی اورتین بہنیں ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا انتقال جنوری 1970 میں ہوا۔ دوسرے اثاثہ کے علاوہ ہمارے والد صاحب نے سونے سے لکھاہوا ایک قرآن شریف چھوڑا جو کہ چار سوسال پرانااور بہت ہی قیمتی ہے۔ قرآن شریف ہماری ماں کی تحویل اور حفاظت میں تھا۔ ہمارے والد صاحب نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی۔ پندرہ سال پہلے ہماری ایک بہن جو کہ لندن میں رہتی ہے انڈیا آئی اس نے میری ماں کو یقین دلایا اور اکسایا کہ وہ اس کو قرآن دے دے دوسرے بھائی اوربہنوں کی رضا، اجازت اور علم کے بغیر۔ جب ہمارے دوسرے بھائی اور بہنوں کو معلوم ہوا کہ ہماری بہن قرآن شریف لندن لے کر چلی گئی ہے بغیر ان کی رضا و رغبت کے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا، کیوں کہ قرآن مجید ہمارے مرحوم والد صاحب کی ملکیت تھی اوران کے انتقال کے بعد یہ ہمارے مرحوم والد صاحب کے وارثین کی اجتماعی ملکیت بن گیا اورہماری بہن اس کو ہماری رضامندی کے بغیر نہیں لے جاسکتی ہے۔ہماری ماں نے ہماری بہن سے کہا کہ اس نے جو قرآن شریف اس کو پندرہ سال پہلے دیا تھا وہ اس کے وارثوں کو واپس کردے ۔ اوروہ بہت زیادہ بحث و مباحثہ کے بعد تیار ہوئی لیکن اب تک اس نے قرآن شریف کو ہمیں واپس نہیں کیا ہے۔ ہماری ماں کا انتقال گیارہ سال پہلے ہوچکا ہے۔ اب ہمارے کچھ بھائی اور بہن کی یہ رائے ہے کہ اگر کوئی شخص لندن میں قرآن شریف کولینے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے لیے اچھا ہدیہ پیش کرتا ہے تو ہم یہ قرآن شریف ہدیہ کے طور پر اس کو دے سکتے ہیں اور یہ رقم شریعت کے مطابق تمام بھائی اور بہنوں کو تقسیم کردیں گے۔ ذیل میں چند سوالات ہیں ان کے بارے میں اپنی رائے دیں: (۱) کیا یہ قرآن شریف ہدیہ(قیمتا) کے بدلہ میں دینا جائز ہے؟ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ یہ قرآن ہاتھ سے اور سونے سے لکھا ہوا ہے اور چار سو سال پرانا ہے۔ (۲)ہماری بہن نے گزشتہ تیرہ سال سے وعدہ کے باوجود وہ قرآن شریف وارثوں کو واپس نہیں کیا ہے۔ اس کو شرعی قانون کے مطابق کیا کرنا چاہیے؟ (۳) اگر کچھ بھائی اور بہن یہ چاہتے ہوں کہ اس کو ہدیہ (قیتا) کے طورپر دے دیں اورکچھ بھائی اور بہن چاہتے ہوں کہ اس کو رکھے رہیں تو اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ لندن میں ایک نیلامی کمپنی ہے جو کہ قرآن شریف میں دلچسپی رکھتی ہے۔ برائے کرم تینوں سوالوں کے جواب عنایت فرماویں۔
2170 مناظركیا انشورنس سے ملی رقم میں وراثت كا مسئلہ؟
1942 مناظر