Q. وراثت کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا تھا۔ ایک صاحب تھے ان کے دو بیٹے اور چھ لڑکیاں ہیں۔ یہ صاحب کا انتقال اپریل 1998میں ہوا اور ان کی بیوی کا انتقال دسمبر 2008میں ہوا۔ یہ صاحب کا ایک گھر حیدرآباد میں ہے (ابھی تک ان کے نام پر ہے) یہ گھر ان کا اپنا تھا اس کو سال 1978میں دو منزلہ بنایا جس پر اس وقت تقریباً ایک لاکھ روپئے لگے ۔اس وقت بڑا بیٹا بھی کچھ پیسہ اس میں لگایا (ایسا وہ بیٹا کہتا ہے)۔ اب اس گھر کی قیمت پچاس لاکھ روپئے سے زیادہ ہے۔ اب یہ گھر صرف بڑے بیٹے کے استعمال میں ہے۔ جب تک ماں زندہ تھی ساتھ اس گھر میں رہتی تھی۔ اب یہ بیٹا کہتا ہے جب بھی پیسہ آئے گا میں سب بہنوں کو دو دولاکھ روپئے دوں گا اور بھائی کو دس لاکھ، کیوں کہ جب گھر توڑکر بنائے تھے تب میں نے بھی پیسہ لگایا تھا۔ یہ بیٹے کا اپنا ایک تین منزلہ مکان اور ایک فلیٹ ہے اس کو کرایہ پر دئے ہوئے ہیں او روہ رہتے اس گھر میں جس میں سب کا حصہ ہے۔(۱)حصہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟کیا جس طرح یہ بیٹا کہہ رہاہے صحیح ہے (کیا وہ گھر بنائی جب کچھ پیسہ لگائے تو وہ اس طرح کرسکتے ہیں)؟ (۲)جو بیٹا اس گھر کو استعمال کررہا ہے کیا اس گھر کا جو بھی کرایہ آئے گا یا کچھ سب کہ دینا ہوگا (جب کہ ان کا ایک تین منزلہ گھر اور ایک فلیٹ اپنا ہے اس کو کرایہ پر دئے ہوئے ہیں اوروہ والد کے گھر میں رہتے ہیں؟ (۳)والد کا انتقال ہوکر دس سال سے زیادہ ہوگئے حصہ دینے میں دیری کرنا کیسا ہے؟