معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 40372
جواب نمبر: 40372
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 647-604/N=8/1433 (۱) حقیقی بھائی کی موجودگی میں علاتی (باپ شریک سوتیلے) بھائی بہن وارث نہیں ہوتے: قال في السراجي (ص:۲۲،۲۳): ثم یرجحون بقوة القرابة أعني بہ أن ذا القرابتین أولی من ذي قرابة واحدة ذکرًا کان أو انثی، لقولہ علیہ السلام: ”إن أعیان بني الأم یتوارثون دون بني العلات“ کالأخ لأب وأم ... أولی من الأخ لأب والأخت لأب إھ. (۲) جی ہاں! اگر آپ اپنی ساری جائداد وغیرہ اپنے حقیقی بھائی بہنوں کے درمیان تقسیم کردیں اور ہرایک کو اسکے حصہ کا مالک وقابض بنادیں اور علاتی بھائی بہنوں کو کچھ بھی نہ دیں تو شرعاً اس میں کچھ حرج نہیں، جائز ہے کیونکہ -جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا-حقیقی بھائی کی موجودگی میں علاتی بھائی بہن وارث ہی نہیں ہوتے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند