معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 4011
ایک جوڑے کا کوئی بچہ نہیں ہے، وہ بیوی کے بھائی کی بیٹی کی اس کے بچپن سے ہی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ شوہر کا نام وقار احمد خان ہے، کیا اس لڑکی کا نام فاطمہ وقار رکھا جاسکتاہے؟ (۲) نکاح کے وقت کس کا نام لیا جائے گا؟ اس لڑکی کے اپنے والدنام لیا جا ئے گایا جو اس کی دیکھ بھا ل کرنے والے کا؟ (۳) کیا اس لڑکی کو اس کی جائداد میں سے حصہ ملے گا؟
ایک جوڑے کا کوئی بچہ نہیں ہے، وہ بیوی کے بھائی کی بیٹی کی اس کے بچپن سے ہی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ شوہر کا نام وقار احمد خان ہے، کیا اس لڑکی کا نام فاطمہ وقار رکھا جاسکتاہے؟ (۲) نکاح کے وقت کس کا نام لیا جائے گا؟ اس لڑکی کے اپنے والدنام لیا جا ئے گایا جو اس کی دیکھ بھا ل کرنے والے کا؟ (۳) کیا اس لڑکی کو اس کی جائداد میں سے حصہ ملے گا؟
جواب نمبر: 401101-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 146/ م= 146/ م
(۱) مذکورہ لڑکی کا نام ?فاطمہ وقار? رکھا جاسکتا ہے، البتہ اس نیت سے صحیح نہیں کہ وہ وقار کی لڑکی ہے۔
(۲) نکاح کے وقت ولدیت میں اس لڑکی کے اپنے والد کا نام لیا جائے گا، اس کی دیکھ بھال کرنے والے کا نام لینا درست نہیں۔
(۳) اس لڑکی کو اپنے والد کی میراث میں سے حصہ ملے گا، دیکھ بھال کرنے والے کی جائیداد میں بطور میراث اس لڑکی کا شرعاً کوئی حصہ نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میرے سسر کی ایک دکان اورایک فلیٹ ہے۔ میرے سسر کا ذہنی توازن خراب ہونے کی وجہ سے یہ دکان میرے شوہر کے بچپن سے بند تھی۔ سسر بیماری سے قبل اس دکان کو چلاتے تھے جب وہ بیمار ہوئے تو دکان بند کردی گئی اور سامان آہستہ آہستہ بیچ کر ختم کردیا۔ پھر پندرہ سال بعد میرے شوہر اورمیرے جیٹھ اس دکان کو چلاتے ہیں۔ دکان جب کھولی تو دکان خالی تھی آہستہ آہستہ دکان میں سامان ڈالتا رہا اور دکان ترقی کرتی گئی، یہاں تک کہ دکان کی کمائی سے دو جائیداد خریدی گئی۔دکان سے نفع نقصان دونوں ہی ہوتا رہا ۔ اب دکان پر تقریباً آٹھ لاکھ کا قرض ہے دونوں بھائی باری باری اس دکان کوچلاتے رہے کبھی ایک بھائی کبھی دوسرا بھائی۔ میری ساس کا انتقال میرے شوہر کے بچپن میں ہوگیا تھا۔ میرے سسر کے انتقال سے قبل ان کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔ میرے سسر کے انتقال کے وقت ان کے وارثوں میں چار بیٹے اور ایک بیٹی حیات تھیں۔ سسر کے انتقال کے بعد بیٹی سلمی کا بھی انتقال ہوگیا۔ سلمی کے وارثوں میں چار بیٹے ایک بیٹی اور شوہر حیات ہیں۔ ا س کے بعد بڑے بیٹے فاروق کا بھی انتقال ہوگیا ان کے انتقال کے وقت ان کے وارثوں میں ایک بیوہ اور چار بیٹی حیات تھیں، پھر مرحوم فاروق کی بیوہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ بیوہ کے انتقال کے وقت ان کے وارثوں میں چار بیٹی ایک بھائی اور دو بہنیں حیات ہیں، پھر میرے شوہر محمد اسلم کا بھی انتقال ہوگیا۔ان کے وارثوں میں ایک بیوہ اور دو بیٹی حیات ہیں۔ اب یہ وراثت میرے سسر کے وارثوں میں کس طرح تقسیم ہوگی؟ ترکہ سے متعلق چند سوال درج ذیل ہیں: (۱)میرے سسر کا ذہی توازن میرے شوہر کے بچپن سے خراب تھا۔ دکان کو دو بیٹوں محمد فاروق اور محمد اسلم نے چلایا تھا۔ اس دکان سے جو دو جگہیں خریدی گئیں تھیں، کیا وہ بھی سسر کے ترکہ میں آئیں گی یا پھر وہ دو جگہیں دو بھائیوں کا ترکہ ہیں؟ (۲)جو دو جگہیں خریدی گئی تھی ان میں سے ایک جگہ مرحوم محمد فاروق کی بیوہ نے بیچ کر رقم یہ کہہ کر رکھ لی کہ یہ میرے شوہر کی کمائی سے خریدی گئی تھی اس پر میرا حق ہے۔ جو جگہ بیچی گئی ہے اس جگہ کا ترکہ کیسے ہوگا؟
2572 مناظرزید کا یہ کہنا کہ اپنی بیٹیوں کو کچھ نہیں دوں گا؟ درست ہے؟
2922 مناظرعمر نے ایک کاغذ پر لکھا کہ میں گھر میں اپنی حصہ نہیں لینا چاہتا ہوں، میں نے اپنا حصہ بکر کو دے دیا ہے اوراس پر دستخط کردئے۔ کچھ سال کے بعد عمر نے اپنا ارادہ بدل لیا اور بکر سے کہا کہ میں گھر میں اپنا حصہ چاہتا ہوں ۔ کیا یہ بکر کے اوپر فرض ہے کہ وہ حصہ دے جب کہ عمر نے ایک کاغذ پر دستخط کردئے ہیں کہ میں اپنا حصہ بکر کو دیتا ہوں؟
1862 مناظرمیری
ساس کی دو لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں۔ سسر صاحب اب حیات نہیں ہیں۔ میری سسرالی گھر
باڑی میری ساس کے نام تھی جو ان کووراثت میں ان کی نانی مرحومہ نے ان کے نام کیا
تھا۔ ان کے سبھی لڑکے اور لڑکیوں کی شادی ہوچکی ہے۔ کچھ دن قبل میرے بڑے سالے نے
اپنی ماں سے گھر باڑی کو دونوں بھائیوں میں تقسیم کرنے کے لیے زبردستی کی جس کی
وجہ سے گھر میں رنجشیں پیدا ہوئیں اور دونوں بھائیوں میں تکرار بھی ہوا۔ اسی چیز
کو حل کرنے کے لیے دونوں سالوں کیبیویوں نے مجھ سے درخواست کی اور کہا کہ آپ آکر
یہ مسئلہ کو حل کردیجئے۔ چونکہ میں گھر کا بڑا داماد ہوں اس لیے مجھے بلایا گیا۔
لیکن میں نے دونوں کی بیویوں کو سمجھایا کہ جب تک آپ دونوں کی ساس باحیات ہیں اس
طرح کی تقسیم کرنا اچھا نہیں اور بچے بھی آپ دونوں کے بہت چھوٹے ہیں۔ اس کی بنا پر
ان کو بھی اس کا اثر پڑ سکتا ہے۔ آپ دونوں اور آپ دونوں کے شوہر صبر سے کا م لیں
اور آپسی تکرار اچھی نہیں ہوتی۔ ....
ہم سات بھائی اورتین بہنیں ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا انتقال جنوری 1970 میں ہوا۔ دوسرے اثاثہ کے علاوہ ہمارے والد صاحب نے سونے سے لکھاہوا ایک قرآن شریف چھوڑا جو کہ چار سوسال پرانااور بہت ہی قیمتی ہے۔ قرآن شریف ہماری ماں کی تحویل اور حفاظت میں تھا۔ ہمارے والد صاحب نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی۔ پندرہ سال پہلے ہماری ایک بہن جو کہ لندن میں رہتی ہے انڈیا آئی اس نے میری ماں کو یقین دلایا اور اکسایا کہ وہ اس کو قرآن دے دے دوسرے بھائی اوربہنوں کی رضا، اجازت اور علم کے بغیر۔ جب ہمارے دوسرے بھائی اور بہنوں کو معلوم ہوا کہ ہماری بہن قرآن شریف لندن لے کر چلی گئی ہے بغیر ان کی رضا و رغبت کے تو انھوں نے اس پر اعتراض کیا، کیوں کہ قرآن مجید ہمارے مرحوم والد صاحب کی ملکیت تھی اوران کے انتقال کے بعد یہ ہمارے مرحوم والد صاحب کے وارثین کی اجتماعی ملکیت بن گیا اورہماری بہن اس کو ہماری رضامندی کے بغیر نہیں لے جاسکتی ہے۔ہماری ماں نے ہماری بہن سے کہا کہ اس نے جو قرآن شریف اس کو پندرہ سال پہلے دیا تھا وہ اس کے وارثوں کو واپس کردے ۔ اوروہ بہت زیادہ بحث و مباحثہ کے بعد تیار ہوئی لیکن اب تک اس نے قرآن شریف کو ہمیں واپس نہیں کیا ہے۔ ہماری ماں کا انتقال گیارہ سال پہلے ہوچکا ہے۔ اب ہمارے کچھ بھائی اور بہن کی یہ رائے ہے کہ اگر کوئی شخص لندن میں قرآن شریف کولینے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے لیے اچھا ہدیہ پیش کرتا ہے تو ہم یہ قرآن شریف ہدیہ کے طور پر اس کو دے سکتے ہیں اور یہ رقم شریعت کے مطابق تمام بھائی اور بہنوں کو تقسیم کردیں گے۔ ذیل میں چند سوالات ہیں ان کے بارے میں اپنی رائے دیں: (۱) کیا یہ قرآن شریف ہدیہ(قیمتا) کے بدلہ میں دینا جائز ہے؟ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ یہ قرآن ہاتھ سے اور سونے سے لکھا ہوا ہے اور چار سو سال پرانا ہے۔ (۲)ہماری بہن نے گزشتہ تیرہ سال سے وعدہ کے باوجود وہ قرآن شریف وارثوں کو واپس نہیں کیا ہے۔ اس کو شرعی قانون کے مطابق کیا کرنا چاہیے؟ (۳) اگر کچھ بھائی اور بہن یہ چاہتے ہوں کہ اس کو ہدیہ (قیتا) کے طورپر دے دیں اورکچھ بھائی اور بہن چاہتے ہوں کہ اس کو رکھے رہیں تو اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ لندن میں ایک نیلامی کمپنی ہے جو کہ قرآن شریف میں دلچسپی رکھتی ہے۔ برائے کرم تینوں سوالوں کے جواب عنایت فرماویں۔
2216 مناظر