• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 39824

    عنوان: وراثت

    سوال: 1996/ میں جمال الدین کا انتقال ہوگیا ، ان کی دوبیویاں اور دس بچے ہیں، بڑی بیوی سے تین بیٹیاں ہیں اور سبھی کی شادی ہوچکی ہے، چھوٹی بیوی سے چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں اور سب سے چھوٹے بیٹے کا علاوہ سب کی شادی ہوچکی ہے۔ 2006/ میں بڑی بیوی کا انتقال ہوگیا ہے، انتقال کے وقت اس نے اپنے نام صدقہ جاریہ کے لئے ایک مسجد بنانے کی وصیت کی تھی ، اب وراثت تقسیم ہونی ہے۔ براہ کرم، بتائیں کہ ان تمام کے درمیان میں تقسیم کیسیہو گی اور وصیت کے سلسلے میں کیا حکم ہوگا؟

    جواب نمبر: 39824

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1516-328/B=8/1433 صورت مذکورہ میں جمال الدین مرحوم کا کل ترکہ از روئے شرع 624سہام پر تقسیم ہوگا جن میں سے زوجہ ثانیہ کو 39سہام، ساتوں لڑکیوں کو 42-42 سہام اور تینوں لڑکوں کو 84-84 سہام ملیں گے، اور بڑی بیوی کی تینوں لڑکیوں کو مزید 13-13 سہام اور ملیں گے یعنی ان تینوں کو 55-55 سہام ملیں گے۔ وراثت کی تقسیم کے بعد اگر بیوی کے پاس اس کے مال میں اتنی گنجائش ہے کہ اس کے تہائی مال میں مسجد تعمیر ہوسکتی ہے تو اس کی یہ وصیت قابل عمل ہوگی، ورنہ وصیت قابل عمل نہ ہوگی۔ بڑی بیوی کی تینوں لڑکیوں کو باپ سے بھی ملا ہے اور ماں سے بھی ملا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند